با نگ درا - غز ليات - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

پردہ چہرے سے اُٹھا ، انجمن آرائی کر

پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

معانی: پردہ چہرے سے اٹھا: اے محبوب حقیقی کھل کر سامنے آ، اپنا دیدار کرا ۔ انجمن آرائی کر: پردے سے باہر نکل کر سامنے ۔ آ مہر و مہ و انجم: سورج اور چاند اور ستارے مراد کائنات ۔ تماشائی کر: دیکھنے والا بنا ۔
مطلب: اے میرے محبوب! اپنا چہرے سے پردہ اٹھا کر اس طرح دیکھنے والوں کو جلوہ دکھا کہ وہ مبہوت ہو کر رہ جائیں حتی کہ سورج، چاند اور ستارے بھی تیرا جلوہ دیکھنے پر مجبور ہو جائیں ۔

تو جو بجلی ہے تو یہ چشمکِ پنہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر

معانی: چشمکِ پنہاں : کنکھیوں سے دیکھنا، نظر چرا کر دیکھنا ۔ بے حجابانہ: کھلے طور پر ۔ شناسائی: واقفیت، دوستی ۔
مطلب: اگر تو بجلی کی مانند رخشندہ ہے تو میں اپنے وجود کو چھپاتا کیا اے محبوب! اس صورت میں لازم ہے کہ کسی حجاب کے بغیر میرے دل میں جاگزیں ہو جا ۔

نفسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر

معانی: نفسِ گرم: گرم سانس، عشق کی تپش ۔ اعجازِ حیات: زندگی، زندہ کرنے کا معجزہ، کرامت ۔ مسیحائی: مردوں کو زندہ کرنے کا عمل ۔
مطلب: حیات انسانی میں سانس کی حرارت ایک معجزے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر تیرے میں یہ حرارت موجود ہے تو تجھے بھی عیسیٰ کی مانند مسیحائی کا درجہ حاصل ہونا چاہیے ۔

کب تلک طُور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہَ سینائی کر

معانی: طور: وادیِ ایمن کا پہاڑ، کوہ طور ۔ دریوزہ گری: بھیک مانگنے کی کیفیت ۔ مثلِ کلیم: حضرت موسیٰ کی طرح ۔ ہستی: وجود ۔ شعلہ سینائی: وہ روشنی جو حضرت موسیٰ کو طور سینا پر نظر آئی ۔
مطلب: حضرت موسیٰ نے کوہ طور پر رب ذوالجلال سے جلوہ دکھانے کی جو درخواست کی تھی بے شک وہ تو ایک طرح سے بھیک مانگنے کی حیثیت رکھتی تھی لیکن تیرے لیے لازم ہے کہ اس نوعیت کی درخواست کی بجائے اپنے ہی وجود سے کوہ طور جیسے جلوے کو برآمد کر ۔

ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانہَ اندازِ کلیسائی کر

معانی: خاک کا ہر ذرہ: یعنی جسم کا رواں رُواں ، بال بال ۔ تعمیرِ حرم: اسلامی شعائر پر پورا عمل یا اسلام کی اشاعت و ترقی کے لیے جدوجہد ۔ بیگانہ: اجنبی ۔ اندازِ کلیسائی: غیر اسلامی، مغربی طور طریقے ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال براہ راست مرد مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری خاک کے ہر ذرے میں ایسی بھرپور صلاحیت ہونی چاہیے کہ اس سے کعبے کی تعمیر ممکن ہو سکے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ تو کلیسا کی تہذیب سے چھٹکارا حاصل کر لے اور اپنے ماضی کی طرف لوٹ آئے ۔

اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازہَ رعنائی کر

معانی: حد سے گزرنا: اعتدال سے بڑھ جانا ۔ ناز: ادا، غمزدہ ۔ باندازہَ رعنائی: خوبصورتی، حسن و جمال ۔
مطلب: اے محبوب! اس عالم رنگ و بو میں حد سے گزرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں کہ تو نے اپنے ناز بھی دکھانے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق دکھا ۔

پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوسِ شوکتِ دارائی کر

معانی: سکندر: سکندر رومی، یونانی ۔ شوکتِ دارائی: ایران کے قدیم بادشاہ دارا کی سی شان ۔
مطلب: پہلے سکندر کی مانند خوددار تو بن جا اس کے بعد ہی دارا جیسے بادشاہ کی شان و شوکت کی تمنا درست ثابت ہو سکتی ہے ۔ ورنہ خودداری اور غیرت مندی کے بغیر اس نوع کی کامرانی ممکن نہیں ۔

مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبال
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر

معانی: منزلِ لیلیٰ: محبوب کا ٹھکانا ۔ بادیہ پیمائی: محبوب کی تلاش میں جنگلوں بیابانوں میں پھرنا ۔
مطلب: اے اقبال آخر کار ایک روز تجھے تیری منزل مقصود ہاتھ آ ہی جائے گی تا ہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ابھی کچھ مزید جدوجہد کر۔

———————–

Transcription in Roman Urdu

Parda Chehre Se Utha, Anjum Arayi Kar
Chashm-e-Meher-o-Mah-o-Anjum Ko Tamashayi Kar

Tu Jo Bijli Hai To Ye Chashmak-e-Pinhan Kab Tak
Be-Hijabana Mere Dil Se Shanasayi Kar

Nafas-e-Garam Ki Taseer Hai Ijaz-e-Hayat
Tere Seene Mein Agar Hai To Masihayi Kar

Kab Talak Toor Pe Daryooza Gari Misl-e-Kaleem
Apni Hasti Se Ayan Shuala’ay Seenayi Kar

Ho Teri Khak Ke Har Zarre Se Tameer-e-Haram
Dil Ko Baigana’ay Andaz-e-Kalisayi Kar

Iss Gulistan Mein Nahin Had Se Guzarna Acha
Naz Bhi Kar To Ba Andaza-e-Raanayi Kar

Pehle Khud-Dar To Manind-e-Sikandar Ho Le
Phir Jahan Mein Hawas-e-Shoukat-e-Darayi Kar

Mil Hi Jaye Gi Kabhi Manzil-e-Laila Iqbal !
Koi Din Aur Abhi Baad Ye Pemayi Kars

Translation in English

Lift the veil from thy Face and be manifest in the assembly
Make the eyes of the sun, moon and stars thy spectators

If thou art the lightning how long this secret winking?
Make acquaintance with my heart without a veil.

The warm breath’s effect is the miracle of life
If it is on thy breast perform life‐giving miracles

How long should begging be on the Tur like Kaleem!
Make the flame of Sinai manifest with thy existence

Let the Harem be built with every speck of thy dust
Make the heart alien to the ways of the Church

It is not good to exceed limits in this garden
If thou showeth elegance make its show with grace

First become self‐respecting like Alexander.
Then make the show of desire of Dara’s grandeur

You will reach the destination of Layla one day, O Iqbal
For some more days continue wandering in the wilderness

——————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button