با ل جبر یل - رباعيات

خودی کی خلوتوں ميں گم رہا ميں

خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں

نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوہَ دوست
قیامت میں تماشا بن گیا میں

معانی: خلوت: تنہائی، علیحدگی ۔ جلوہَ دوست: محبوب حقیقی کا دیدار ۔
مطلب: اس رباعی میں اقبال نے اپنی ذات کے حوالے سے ایک تصوراتی منظر نامہ پیش کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ روز قیامت جب میدان حشر میں سب لوگ جمع تھے اور خالق حقیقی کا جلوہ دیکھنے میں مگن تھے تو میں اس وقت بھی اپنی خودی میں مگن تھا اور اس مرحلے پر بھی خالق حقیقی کا جلوہ دیکھنے سے بے نیاز رہا جس کے نتیجے میں وہاں موجود لوگوں کے درمیان تماشا بن کر رہ گیا ۔

———————-

Transliteration

Khudi Ki Khalwaton Mein Gum Raha Main
Khuda Ke Samne Goya Na Tha Main

I was in the solitude of Selfhood lost,
And was, it seemed, unaware of the Presence;

Na Dekha Ankh Utha Kar Jalwa-e-Dost
Qayamat Mein Tamasha Ban Gya Main!

I lifted not my eyes to see my Friend,
And, on the Day of Judgment, shamed myself.

————————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button