ارمغان حجاز - رباعیاتعلامہ اقبال شاعری

غريبی ميں ہوں محسود اميری

(Armaghan-e-Hijaz-12)

Ghareebi Mein Hun Mehsud-e-Ameeri

(غریبی میں ہوں محسود امیری)

My poor estate makes proud men covetous

غریبی میں ہوں محسودِ امیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری

معانی: محسود امیری: جس پر امیری حسد کرے ۔ غیرت مند: عزت دار، خوددار ۔
مطلب: فقیری اور درویشی دو قسم کی ہے ایک وہ جو آدمی کو بھکاری اور گدا بنا کر دوسرے کے آگے دست سوال دراز کرنے پر مجبور کرتی ہے اور دوسروں کو محتاج بنا دیتی ہے اور دوسری وہ جس میں وہ فقیر کو ہر در سے بے نیاز بنا کر صرف اللہ کے در پر رکھتی ہے ۔ ایسا فقر چونکہ صرف اللہ کے در کا مانگت ہوتا ہے اس لیے بادشاہ، امیر، منعم اور دوسرے سب اس کی چوکھٹ کے مانگت ہوتے ہیں ۔

———————

حذر اس فقر و درویشی سے جس نے
مسلماں کو سکھا دی سربزیری

معانی: سربزیری: کسی کے آگے جھکنا ۔
مطلب: علامہ اس دوسری قسم کی فقیری کا ذکر کرتے ہویے اس رباعی میں کہتے ہیں اگرچہ میرے پاس دولت دنیاوی نہیں ہے لیکن اس حالت غریبی میں بھی میری یہ شان ہے کہ دولت والے مجھ سے حسد کرتے ہیں انہیں اپنی امیری سے زیادہ میری فقیری بہتر معلوم ہوتی ہے ۔ اپنے فقر کی مثال دینے کے بعد علامہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم اس فقر اور دوریشی سے بچو جس نے تم کو دوسروں کے آگے جھکنا اور ہاتھ پھیلانا سکھا دیا ہے جس نے تمہاری عزت اور غیرت کو تم سے چھین لیا ہے ۔

 

———————

Transliteration

Ghareebi Mein Hon Mehsood-E-Ameeri
Ke Ghairatmand Hai Meri Faqeeri

My poor estate makes proud men covetous,
Poverty such as mine ennobles us.

Hazzar Uss Faqar-O-Darveshi Se, Jis Ne
Musalman Ko Sikha Di Sar-Ba-Zayri

Beware those other rags and begging‐bowls
That make the Muslim pusillanimous!

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button