با ل جبر یل - منظو ما ت

جاويد کے نام

جاويد  کے نام

خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ

مطلب: اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ اے فرزند عزیز! اس حقیقت کو پوری طرح ذہن نشین کر لے کہ خودی ہی ایسا جذبہ ہے جس کو اپنانے سے فرد کو حیات جاودانی نصیب ہو سکتی ہے اور وہ اپنے عمل سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ یہ جذبہ خودی ہی ہے جو افراد اور قوموں کے لیے عروج و ارتقاء کی منزل فراہم کرتا ہے ۔

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود
ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ

معانی: فروغ: ترقی ۔ فراغ: فرصت ۔
مطلب: یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی مقصد لے کر آتا ہے ۔ یہی مقصد اسے ارتقاء کی منزل سے ہم آہنگ بھی کرتا ہے اور اطمینان قلب بھی بخشتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ظاہری نمود و نمائش کوئی شے نہیں ۔ اصل مسئلہ وہ زندگی ہے جو بامقصد ہو ۔ یہی جذبہ فرد کو عملی جدوجہد کا حامل بناتا ہے ۔

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ

معانی: زاغ: کوا ۔ شاہیں بچے: باز کا بچہ ۔
مطلب: اب ذرا ایک پرندے کوے کی جانب دیکھو کہ وہ ادھر اُدھر منہ مار کر بڑی عیاری اور چالاکی سے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں کا مال ہڑپ کر جاتا ہے ۔ لیکن خود اپنی جدوجہد کے ذریعے کبھی بھی روزی حاصل کرنے کے قابل نہ ہو سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں بلند پروازی مفقود ہے ۔ یہ بھی جان لو کہ اگر کسی بلند پرواز شاہیں کا بچہ کوے کی صحبت میں رہے گا تو وہ اپنی فطری صلاحیتوں سے محروم ہو کر اس کی سی عادتیں اختیار کر لے گا ۔ مراد یہ ہے کہ صحبتِ بد سے گریز کرو کہ یہ انسان کے اپنے کردار کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے ۔

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

مطلب: اس وقت کیفیت یہ ہے کہ پورے معاشرے پر نظر ڈالیں تو اس امر کا بڑی شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ انسانوں میں غیرت و حیا کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے ۔ کسی بھی برائی کو قبول کرتے ہوئے ان کو کسی طرح کی پشیمانی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ سو اے بیٹے! اس صورت حال کے پیش نظر میں خدائے عزوجل سے یہی دعا کرتا ہوں کہ تجھ میں غیرت و حیا کا جذبہ برقرار رہے اور تیرا شباب ہمیشہ داغ دار ہونے سے بچا رہے ۔

ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ

معانی:ظریف: خوش مذاق، اچھا سوچنے والا، دماغ میں بھی شگفتگی ہے ۔
مطلب: آخری شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ جہاں تک میری زندگی اور کردار کا تعلق ہے اس امر سے واضح ہو جائے گا کہ میں ایک خوش طبع، خوش اخلاق اور خوش ہونے کے سبب ان خانقاہوں کے قریب تک نہ پھٹک سکا جو تنگ ظرف، خشک طبع اور مفسد ملاؤں کی کمین گاہیں بنی ہوئی ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ نوجوانوں کو جہاں رند مشرب لوگوں کی صحبتوں سے گریز کرنا چاہیے وہاں متذکرہ قسم کی خانقاہوں سے احتزاز بھی لازم ہے کہ ہر دو مقامات کا ماحول غیرت و حیا سے عاری ہو چکا ہے اور نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ۔

—————————-

Transliteration

Javed Ke Naam

(London Mein Uss Ke Hath Ka Likha Huwa Pehla Khat Ane Par)

Diyar-e-Ishq Mein Apna Maqam Paida Kar
Naya Zamana, Naye Subah-o-Sham Paida Kar

Khuda Agar Dil-e-Fitrat Shanas De Tujh Ko
Sakoot-e-Lala-o-Gul Se Kalaam Paida Kar

Utha Na Sheesha Garan-e-Farang Ke Ehsan
Sifal-e-Hind Se Meena-o-Jaam Paida Kar

Main Shakh-e-Taak Hun, Meri Ghazal Hai Mera Samar
Mere  Samar Se Mai-e-Lala Faam Paida Kar

Mera Tareeq Ameeri Nahin, Faqeeri Hai
Khudi Na Baich, Ghareebi Mein Naam Paida Kar!

————————–

To Javaid

(On receiving his first letter in London)

Build in love’s empire your hearth and your home;
Build Time anew, a new dawn, a new eve!

Your speech, if God give you the friendship of Nature,
From the rose and tulip’s long silence weave.

No gifts of the Franks’ clever glass‐bowers ask!
From India’s own clay mould your cup and your flask.

My songs are the grapes on the spray of my vine;
Distil from their clusters the poppy‐red wine!

The way of the hermit, not fortune, is mine;
Sell not your soul! In a beggar’s rags shine.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button