بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

شبنم اورستارے

اک رات يہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو ميسر ہيں نظارے
کيا جانيے ، تو کتنے جہاں ديکھ چکی ہے
جو بن کے مٹے، ان کے نشاں ديکھ چکی ہے
زہرہ نے سنی ہے يہ خبر ايک ملک سے
انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے

کہہ ہم سے بھی اس کشور دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کی
گلشن نہيں ، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر
کيا تم سے کہوں کيا چمن افروز کلی ہے
ننھا سا کوئی شعلہ بے سوز کلی ہے
گل نالہ بلبل کی صدا سن نہيں سکتا
دامن سے مرے موتيوں کو چن نہيں سکتا
ہيں مرغ نواريز گرفتار، غضب ہے
اگتے ہيں تہ سايہ گل خار، غضب ہے
رہتی ہے سدا نرگس بيمار کی تر آنکھ
دل طالب نظارہ ہے ، محروم نظر آنکھ
دل سوختہ گرمی فرياد ہے شمشاد
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد
تارے شرر آہ ہيں انساں کی زباں ميں
ميں گريہ گردوں ہوں گلستاں کی زباں ميں
نادانی ہے يہ گرد زميں طوف قمر کا
سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا

بنياد ہے کاشانہ عالم کی ہوا پر
فرياد کی تصوير ہے قرطاس فضا پر

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button