با نگ درا - غز ليات - (حصہ اول)علامہ اقبال شاعری

کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے

کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے

معانی: کشادہ کرنا: کھولنا ۔ دستِ کرم: سخاوت، بخشش کا ہاتھ ۔ وہ بے نیاز: مراد خدا تعالیٰ ۔ نیاز مند: عاجزی کرنے والا ۔ ناز کرے: فخر کرنا ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں کہا گیا ہے کہ خدائے عزوجل جب انسان پر کرم نوازی کرتا ہے تو وہ جو بے شک مجبور و تہی دامن ہے اس انسان کو تو اس کرم نوازی پر فخر و ناز ہونا چاہیے ۔

بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے

معانی: واعظ: مسجد میں وعظ کرنے والا ۔ احتراز کرنا: دور رہنا ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں واعظ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک نازک مسئلے کو بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں چھیڑا ہے ۔ ان کے مطابق واعظ اپنی تقریروں میں بار بار اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ آسمان پر مقیم ہے ۔ اقبال اس مفروضے پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ خدا ہی کیا جو اپنی مخلوق سے احتراز کرتے ہوئے اتنی دور جا بیٹھا ہے حالانکہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا خدا تو وہ ہے جو صرف آسمان پر ہی نہیں ہر جگہ موجود ہے ۔ اقبال کے بقول واعظوں نے تو خدا کے وجود کو بھی محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہ امر ان کی تنگ نظری کے سوا اور کیا ہے

مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے

معانی: رند: شراب پینے والا ۔ ساقی: شراب پلانے والا ۔ ہوشیاری: ہوش میں ہونا ۔ مستی: مدہوشی، ہوش میں نہ رہنا ۔ امتیاز کرے: فرق کرنا ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ میرے نزدیک وہ بادہ نوش صحیح معنوں میں بادہ نوش نہیں ہو سکتا جو ہوش اور مستی کی کیفیتوں میں تمیز کرنے کا اہل ہو ۔ مراد یہ ہے کہ حقیقی بادہ نوش وہی شخص ہے جو ہر لمحے مست و سرشار رہے حتیٰ کہ اپنے آپ کو بھی فراموش کر دے اور سب کچھ بھول جائے ۔

مدام گوش بہ دل رہ! یہ ساز ہے ایسا
جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے

معانی: مدام: ہمیشہ ۔ گوش بہ دل رہنا: دل کی طرف متوجہ رہنا، کان لگائے رہنا ۔ ساز: موسیقی کا آلہ ۔ شکستہ: ٹوٹا ہوا، محبت میں چور ۔ نوائے راز: بھید کا گیت ۔
مطلب: اے انسان تیرے لیے لازم ہے کہ ہر لمحے مستعد اور دل کی آواز کی طرف متوجہ رہے کہ جب یہ شکستگی کے عمل سے گزر تا ہے تو پھر اسرار حیات منکشف ہونے لگتے ہیں ۔

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے

معانی: واعظ: مسجد میں وعظ کرنے والا ۔ بے عمل: جس نے کوئی نیک عمل نہ کیا ہو ۔ رحمت: مہربانی، بخشش ۔
مطلب: کوئی حضرت واعظ سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کرے کہ اگر رب العزت کسی گناہ گار پر کرم نوازی کرتا ہے تو حضرت یہ فرمائیے کہ اس میں آپ کا کیا نقصان ہے ۔ مراد یہ ہے کہ واعظان کرام کا طرز عمل تو یہی ہے کہ وہ لوگوں کو جرم و گناہ کے حوالے سے اپنی تقریروں میں خوفزدہ کرتے رہتے ہیں جب کہ خدا رحیم بھی ہے کریم بھی ۔

سخن میں سوز، الہٰی کہاں سے آتا ہے
یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے

معانی: سخن: بات، شاعری ۔ سوز: تپش، گرمی، تاثر ۔ گداز کرنا: پگھلانا ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں خالق کائنات سے استفسار کرتے ہیں کہ شعر و سخن میں جو سوز پیدا ہوتا ہے اس کے محرکات کیا ہیں ۔ اس لیے کہ سوز تو ایسی حقیقت ہے جو انسان تو انسان پتھر کو بھی پگھلا کر رکھ دیتا ہے ۔

تمیزِ لالہ و گل سے ہے نالہَ بلبل
جہاں میں وا نہ کوئی چشمِ امتیاز کرے

معانی: تمیز: فرق کرنا ۔ لالہ و گل: مختلف قسم کے پھول ۔ نالہَ بلبل: بلبل کا رونا ۔ وا کرنا: کھولنا ۔ چشمِ امتیاز : فرق کرنے والی آنکھ ۔
مطلب: بلبل کو گلاب کے پھول سے تو عشق ہے اور لالے کے پھول سے بے تعلق رہتی ہے گلاب کے مرجھانے پر اسی لیے وہ اداس ہو جاتی ہے چانچہ اگر وہ دوسرے پھولوں کو بھی گلاب کی مانند چاہے تو پھر اس کو نالہ و فریاد کی ضرورت نہ ہو گی ۔ مراد یہ کہ اس نوع کا امتیازی سلوک مناسب نہیں ہوتا ۔

غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگانِ خدا پر زبان دراز کرے

معانی: غرور: خود کو بڑا کہنا ۔ غبار: گرد، مٹی ۔
مطلب: یہ عبادت و زہد کا غرور ہے جو حضرت واعظ کو دوسرے بندگان خدا کے خلاف زبان دراز کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔

ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے

معانی: غرور: خود کو بڑا کہنا ۔ غبار: گرد، مٹی ۔ رہِ حجاز: حجاز کا راستہ، مراد اسلام و حضور سے عقیدت ۔
مطلب: اقبال اس آخری شعر میں تمنا کرتے ہیں کہ کوئی ایسی ہوا آئے جو مجھے ہندوستان سے اڑا کر مدینے کی طرف لے جائے ۔

—————-
Transition
Kushada Dast-e-Karam Jab Woh Be-Niaz Kare
Niazmand Na Kyun Ajazi Pe Naaz Kare
Bitha Ke Arsh Pe Rakha Hai Tu Ne Ae Waaiz!
Khuda Woh Kya Hai Jo Bandon Se Ehtraz Kare
Meri Nigah Mein Woh Rind Hi Nahin Saqi
Jo Hoshiyari-o-Masti Mein Imtiaz Kare
Madaam Gosh Ba Dil Reh, Ye Saaz Hai Aesa
Jo Ho Shikasta To Paida Nawa-e-Raaz KareKoi Ye Puche Ke Waaiz Ka Kya Bigarta Hai
Jo Be-Amal Pe Bhi Rehmat Woh Be-Niaz KareSukhan Mein Souz, Elahi Kahan Se Ata Ha
Ye Cheez Woh Hai Ke Pathar Ko Bhi Gudaz KareTameez-e-Lala-o-Gul Se Hai Nala-e-Bulbul
Jahan Mein Wa Na Koi Chashm-e-Imtiaz KareGhuroor-e-Zuhd Ne Shikhla Diya Hai Waaiz Ko
Ke Bandgan-e-Khuda Par Zuban Daraz Kare

Hawa Ho Aesi Ke Hindustan Se Ae Iqbal
Ura Ke Mujh Ko Ghubar-e-Rah-e-Hijaz Kare

————–
Translation
When that Beniaz opens His Graceful Hand
Why should the niazmand be not proud of his humility
You have confined Him to the ‘Arsh, O preacher!
What kind of God would keep away from His people?
In my view he is not a rind at all, O cup‐bearer
Who would distinguish between ecstasy and lack of it
Always remain very attentive to the heart, this orchestra is such
If broken, it would produce the music of the Secret
Somebody should ask how it hurts the preacher
If God shows His Grace even to the sinner
O God! From where does poetry acquire its heat?
This is a thing with which even stone would soften
Nightingale’s lament comes from discrimination between tulip and rose
No one in the world should open the discriminating eye
The arrogance of piety has taught the preacher
To use abusive language to the people of God
Such wind should blow from India, O Iqbal
Which would blow me as dust to Hijaz

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button