اے چاند! حسن تيرا فطرت کی آبرو ہے
طوف حريم خاکی تيری قديم خو ہے
يہ داغ سا جو تيرے سينے ميں ہے نماياں
عاشق ہے تو کسی کا، يہ داغ آرزو ہے؟
ميں مضطرب زميں پر، بے تاب تو فلک پر
تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے
انساں ہے شمع جس کی ، محفل وہی ہے تيری؟
ميں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تيری؟
تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی ميں
پوشيدہ ہے وہ شايد غوغائے زندگی ميں
استادہ سرو ميں ہے ، سبزے ميں سو رہا ہے
بلبل ميں نغمہ زن ہے ، خاموش ہے کلی ميں
آ ! ميں تجھے دکھاؤں رخسار روشن اس کا
نہروں کے آئنے ميں شبنم کی آرسی ميں
صحرا و دشت و در ميں ، کہسار ميں وہی ہے
انساں کے دل ميں ، تيرے رخسار ميں وہی ہے