بال جبریل (حصہ دوم)

يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر يک دانہ

یوں ہاتھ نہیں آتا، وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ

معانی: گوہر: موتی ۔ یک دانہ: قیمتی ۔ یک رنگی: ظاہر و باطن کا ایک رنگ ہونا ۔
مطلب: ان اشعار میں اقبال نے آزادی او ر منافقت سے گریز کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ منافقت سے گریز کو وہ یک رنگی کے عمل سے تعبیر کرتے ہیں اور آزادی سے ان کی مراد آزادی اظہار و افکار، آزادی خیر، اور زندگی کی ہر معاملے میں مکمل آزادی ہے چنانچہ مطلع میں کہتے ہیں کہ اے ہمت مردانہ اس حقیقت سے آگاہ رہ کر آزادی اور منافقت سے گریز کا عمل ہی ایسے عناصر ہیں جن کی مدد کے بغیر انسان کو گوہر مقصود ہاتھ نہیں آتا ۔

یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری
یا مردِ قلندر کے اندازِ ملوکانہ

معانی: سنجر و طغرل: مسلمان بادشاہوں کے نام ۔
مطلب: نظم کے کم و بیش تمام اشعار میں آزادی و یک رنگی کے حوالوں سے علامہ نے ایک تقابلی فضا تخلیق کی ہے ۔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے ہمت مردانہ! یا تو سنجر اور طغرل جیسے عالی مرتبت حکمرانوں کی طرز جہانگیر اختیا ر کر لے یا سچے درویشوں کی صفات کو اپنا لے ۔

یا حیرت فارابی، یا تاب و تب رومی
یا فکرِ حکیمانہ، یا جذبِ کلیمانہ

مطلب: تقابلی جائزہ کو جاری رکھتے ہوئے اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ یا تو حکیم ابو نصر فارابی جیسی دانش و حکمت حاصل کر یا مولانا روم جیسا سوز و گداز کہ یہی حضرت موسیٰ کا مطیع رہا ہے ۔

یا عقل کی رُوباہی، یا عشقِ یدُ اللّٰہی
یا حیلہَ افرنگی، یا حملہَ ترکانہ

معانی: روباہی : بزدلی ۔ عشقِ ید اللّٰہی: حضرت علی کا عشق ۔ یا حیلہَ افرنگی: فرنگیوں کا مکر و فریب ۔ حملہَ ترکانہ: ترکوں کا حملہ ۔
مطلب: جب بات عقل تک پہنچے تو اس کی حیلہ سازی اور عیاری سیکھ لے کہ یہ مغربی دانشوروں کا وطیرہ ہے ۔ یا پھر علی شیرِ خدا کی جرات اور عشق حقیقی کے علاوہ ترک عساکر کی جرات و یلغار اپنا لے ۔

یا شرعِ مسلمانی، یا دیر کی دربانی
یا نعرہَ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ

معانی: دیر کی دربانی : مندر کی چوکیداری ۔
مطلب: یہ بھی نہیں تو پھر اسلامی شریعت اپنا لے یا پھر کفار کی کاسہ لیسی اختیار کر لے یوں بھی کعبہ ہو یا بت خانہ مردوں کا شیوہ یک رنگی پر مبنی ہونا چاہیے ۔

میری میں ، فقیری میں ، شاہی میں ، غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا بے جراَتِ رندانہ

مطلب: سرداری ہو یا فقیری، بادشاہی ہو یا غلامی ہر عمل کی تکمیل جراَت رندانہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس نظم میں علامہ نے مختلف شخصیتوں اور کردار کے حوالوں سے ایسی فضا تخلیق کی ہے جو نوع انسانی کے انتہائی تضادات کی آئینہ دار ہے اور جس کا مقصد آزادی اور یک رنگی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

————————-

Translation

Yun Hath Nahin Ata Woh Gohar-e-Yak Dana
Yak Rangi-o-Azadi Ae Himmat-e-Mardana!

Ya Sanjar-o-Tughral Ka Aaeen-e-Jahangeeri
Ya Mard-e-Qalandar Ke Andaz-e-Mulookana!

Ya Hairat-e-Farabi Ya Taab-o-Tab-e-Rumi
Ya Fikr-e-Hakeemana Ya Jazb-e-Kaleemana!

Ya Aqal Ki Roobahi Ya Ishq-e-Yadullahi
Ya Heela-e-Afrangi Ya Hamla-e-Tarkana!

Ya Shara-e-Musalmani Ya Dair Ki Darbani
Ya Naara-e-Mastana , Kaaba Ho Ke Butkhana!

Meeri Mein Faqeeri Mein, Shahi Mein Ghulami Mein
Kuch Kaam Nahin Banta Be-Jurrat-e-Rindana

————————————–

O manly heart, the goal you seek is hard to gain like gem unique:
Get firm resolve and freedom true, If aim of life you wish to woo.

Like Sanjar great and Tughral just to rule and conquer learn you must:
Or like a qalandar true and bold the wont and way of monarch hold.

Farabi’s thirst for lore beget, or Rumi’s fever great and fret:
You need a thinker’s lofty gaze, or Moses’ passion to amaze.

Learn the wolfish tricks and guile, be like Franks in wit and wile:
Else own the passion of God’s Hand, or strike the foes like Tartar band.

Act on Muslim law and rites, or sit in fane like acolytes:
Be it the Shrine or temple high, ever like a drunkard cry.

In whatsoever state you be, a fettered thrall or monarch free:
No wonder ever can be wrought, with Love, if courage be not fraught.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button