سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

کارل مارکس کی آواز

یہ علم و حکمت کی مُہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش
نہیں ہے دُنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

معانی: مہرہ بازی: لفظی معانی ہیں مہروں سے کھیلنا لیکن مراد عیاری اور مکاری ہے ۔ گوارا نہیں : پسند نہیں ۔
مطلب: یہودی کارل مارکس نے جو اشتراکیت کا بانی ہے عہد حاضر کے ان سیاسی اور معاشی مفکروں سے خطاب کرتے ہوئے جو سرمایہ دارای کے حامل ہیں اور اشتراکیت کے خلاف ہیں کہا ہے کہ میرے نظام اشتراکیت کے خلاف اور سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں تم جتنی بھی علم کی اور حکمت کی باتیں کرتے ہو یہ دراصل تمہاری عیاری اور مکاری کی باتیں ہیں اور اس سلسلے میں تم جو بحث و تکرار بھی کرتے ہو وہ دل سے نہیں بلکہ محض اپنی نمود کے لیے کرتے ہو ۔ سمجھ رکھو تمہاری یہ مکاری کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ دنیا والوں کو اب سرمایہ دارانہ قسم کے پرانے خیالات کی نمائش سے کوئی سروکار نہیں رہا ۔

تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوطِ خمدار کی نمائش مریز و کجدار کی نمائش

معانی: حکیم معاش: معاشیات کا مفکر ۔ خطوط خمدار: ٹیڑھے خط ۔ مریز و کجدار: لفظی معانی نہ گرا اور ٹیرھا رکھ ۔ مراد ہے کسی کی جھولی میں سب کچھ ڈالنے کی کوشش کرنا لیکن کچھ نہ ڈالنا ۔
مطلب: اے معاشیات کے وہ مفکر جو اشتراکیت کے مقابلے سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کر رہا ہے تو نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سوائے اس کے کیا ہے کہ اس میں کچھ ٹیڑھی لکیریں اور جو مضمون ہے وہ کچھ اس انداز کو لیے ہوئے ہے کہ کسی کی جھولی میں سب کچھ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کرنا لیکن ڈالنا کچھ بھی نہیں ۔ یعنی تم اپنی کتابوں میں غریبوں ، مزدوروں اور کسانوں کی ہمدردی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملاً ان کے لیے کچھ کرنے کا طریقہ نہ بتاتے ہو نہ نافذ کرتے ہو اس کے مقابلے میں مجھے دیکھو میں نے اپنی کتاب بنام سرمایہ میں مزدوروں کی جھولی کو خالی نہیں رکھا ۔

جہانِ مغرب کے بتکدوں میں ، کلیساؤں میں ، مدرسوں میں
ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے عقلِ عیار کی نمائش

معانی: ہوس کی خونریزیاں : شیطانی خواہشات کے ایسے ہتھکنڈے جو غریبوں کا خون بہاتے ہیں ۔ عقل عیار: مکار عقل ۔
مطلب: کارل مارکس سرمایہ دارانہ نظام کا پرچار کرنے والوں کو کہتا ہے کہ کیا تم نے یورپ کے بت کدوں ، گرجوں اور مدرسوں کو نہیں دیکھا کہ وہاں کے سرمایہ دار لوگ دولت حاصل کرنے کے لیے اور غریبوں اور مزدوروں کا خون چوسنے کے لیے مکار عقل کے ذریعے ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ جس سے سرمایہ دارانہ نظام واقعی بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ علامہ نے اس سے پہلی نظم بہ عنوان اشتراکیت میں اشتراکی نظام معاش کی برائی دکھائی تھی اور زیر بحث نظم میں کارل مارکس کے خیالات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں اور مکاریوں کو ظاہر کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ نہ کارل مارکس کا اشتراکی نظام انسان کی بھلائی کے لیے ہے اور نہ یورپ والوں کا سرمایہ دارانہ نظام ۔ اگر کوئی نظام امیر و غریب کے تفرقے اور چپقلش کو ختم کرتا ہے اور ہر چھوٹے بڑے طبقہ کی بھلائی کا علم بردار ہے تو وہ صرف قرآن اور اسلام کا معاشی نظام ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button