ارمغان حجاز - رباعیاتعلامہ اقبال شاعری

فراغت دے اسے کار جہاں سے

(Armaghan-e-Hijaz-10)

Faraghat De Usse Kaar-e-Jahan Se

(فراغت دے اس کار جہاں سے)

Set him free of this world’s affairs

 

فراغت دے اسے کارِ جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے

معانی: فراغت: فرصت ۔ کار جہاں : دنیا کا کام ۔ ہر نفس: ہر لمحہ ۔
مطلب: اس رباعی میں علامہ نے شاعرانہ شوخی سے کام لیتے ہوئے خدا سے کہا ہے کہ شیطان جسے تو نے ہزاروں سال پہلے پیدا کیا تھا آج تک ہر لمحہ اسی فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ان کو تجھ سے دور رکھ سے ۔

—————

ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہِ تازہ تر لائے کہاں سے

معانی: پیری: بڑھاپا ۔ کہنہ اندیش: پرانی سوچ والا ۔ تازہ تر: پہلے سے نئی، زیادہ تازہ ۔
مطلب: اگرچہ بوڑھا ہو گیا ہے لیکن ابھی تک اسی پرانی سوچ میں مبتلا ہے اس کے اندر نئی سوچ نہیں آ سکتی ۔ بہتر ہے کہ اب اسے لوگوں کو بہکانے کے اس کام سے فارغ کر دے ۔ تاکہ وہ ہر لمحہ کی آزمائش سے چھٹکارا پا لے ۔ عہد حاضر کا آدمی تو خود سراپا شیطان بن چکا ہے اب کوئی نئی سوچ والا شیطان پیدا کر جو اسے شیطنت کا نیا کاروبار سکھا سکے ۔ مقصود اس رباعی کے مضمون سے یہی بتانا ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت نے آدمی میں ہر وہ برائی پیدا کر دی ہے جو شیطان اس میں پیدا کر سکتا ہے اس لیے اب اس پرانے شیطان کی ضرورت نہیں رہی ۔

—————

Transliteration

Faraghat De Usse Kar-E-Jahan Se
Ke Chootay Har Nafs Ke Imtihan Se

Set him free of this world’s affairs
To be free of casting for everyone snares.

Huwa Peeri Se Shaitan Kuhna Andaish
Gunah-E-Taza Tar Laye Kahan Se !

In old age, Satan’s thoughts too are old
Where from should he bring new sins’ flares?

—————

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button