بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

تری نگاہ فرومايہ ، ہاتھ ہے کوتاہ

 

تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ

معانی: فرومایہ: کمزور ۔ کوتاہ: جھوٹا ۔ نخیل بلند: بلند پودا ۔
مطلب: نظم کے اولین شعر میں معمول کے مطابق مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ تیری نگاہ دوررس نہیں اور ہاتھ بھی اتنا چھوٹا ہے کہ بلندی تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ اگر تو کھجور کے بلند و بالا درخت سے پھل نہیں توڑ سکتا تو اس میں قصور درخت کا ہے یا تیرا! مراد یہ ہے کہ مقاصد بلند ہوں تو انسان کے حوصلے بھی بلند ہونا چاہیں ۔

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الّا اللہ

مطلب: اس شعر میں اقبال نے نظام تعلیم کی خامیوں کی جانب اشارہ کیا ہے جس کے باعث مسلمان اپنی دینی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ یہ تعلیم تو طلبا کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر کے رکھ دیتی ہے ۔ پھر وہ نعرہ حق کیسے بلند کر سکتے ہیں ۔

خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لیے اب صلاحِ کار کی راہ

مطلب: تیرے لیے اب فلاح کی راہ یہی ہے کہ خدائی جو خودی میں پوشیدہ ہے اس کو پھر سے ڈھونڈ نکال کہ اسی میں تیری بہتری ہے ۔

حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ

معانی: درویش بے گلیم: بغیر گدڑی کے درویش ۔
مطلب: دل میں جو رازہائے درون پردہ موجود ہیں ان کے بارے میں کسی حقیقی درویش سے استفسار کر وہی تجھے تیرے صحیح مقام سے آگاہ کر سکتا ہے لیکن اس جعلی درویش سے احتزاز کر جس نے ایک نمائشی گدڑی کاندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔

برہنہ سَر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

معانی: برہنہ سر: ننگے سر ۔
مطلب: اپنے سر پر کامیابی کا تاج رکھنا ہے تو پھر اپنے عزائم اور حوصلے بلند رکھ کہ بلند پروازی شاہین کی روایت ہے تو بھی شاہین کی پیروی کر ۔

نہ ہے ستارے کی گردش نہ بازیِ افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت و جاہ

معانی: زوالِ نعمت و جاہ: امیری کا زوال ۔
مطلب: تو جو اقتدار اور نعمتوں سے محروم ہو گیا ہے تو تقدیر آسمان و ستاروں کو اسی صورت حال کا ذمہ دار سمجھتا ہے بنیادی طور پر یہ سوچ ہی غلط ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تونے خودی سے رشتہ کاٹ دیا ہے اور دل عزم و حوصلے سے خالی ہو گیا ہے ۔

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

مطلب: افسوسناک بات یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی علوم کے تمام ادارے اپنے حقیقی مسلک سے محروم ہو گئے ہیں ۔ نہ ان میں زندگی کی رمق باقی رہی اس کے علاوہ یہاں اب محبت و معرفت کا بھی فقدان ہے ۔ یہ ادارے تو اپنی حقیقی روح سے محروم ہو چکے ہیں ۔

——————

Translation

Teri Nigah Firomaya, Hath Hai Kotah
Tera Gunah Ke Nakheel-e-Buland Ka Hai Gunah

Gala To Ghoont Diya Ahl-e-Madrasa Ne Tera
Kahan Se Aye Sada ‘LA ILAHA ILLALLAH’

Khudi Mein Gum Hai Khudai, Talash Kar Ghafil!
Yehi Hai Tere Liye Ab Salah-e-Kaar Ki Rah

Hadees-e-Dil Kisi Darvaish-e-Be-Gileem Se Puch
Khuda Kare Tujhe Tere Maqam Se Aagah

Barahna Sar Hai Tu Azam-e-Buland Paida Kar
Yahan Faqt Sar-e-Shaheen Ke Waste Hai Kulah

Na Rahe Sitare Ki Gardish Na Bazi-e-Aflak
Khudi Ki Mout Hai Tera Zawal-e-Naimat-o-Jah

Utha Main Madrasa-o-Khanqah Se Ghamnaak
Na Zindagi, Na Mohabbat, Na Maarifat, Na Nigah!

————————-

Your vision and your hands are chained, earthbound,
Is it your nature’s fault, or of the thought too high?

The school-men have strangled your nascent soul,
And stifled the voice of passionate faith in you.

Absorb yourself in self-hood, seek the path of God,
This is the only way for you to find freedom.

Ask an unclad dervish what the heart doth say,
May God show you your place in the world of men.

If bare‐headed, have a towering will,
The crown is not for you, but for the eagle alone.

When you lose self hood, you lose power, too;
Blame not the stars and fate for your fall.

Monasteries and schools left me sad and dejected,
No life and no love; no vision and no knowledge.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button