تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار
جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ
خودبخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
مطلب: ایک مدت سے یہودی سود خوار یورپ کو ہڑپ کرنے کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ عیار و مکار لوگ جن کے بالمقابل چیتے جیسی پھرتی اور شہ زوری بھی ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یورپ کی حیثیت تو ایک پکے ہوئے پھل کی مانند ہے ۔ کون جانے وہ کس کی جھولی میں جا گرے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ خیال اقبال نے جرمنی کے مشہور فلسفی اور دانشور نطشے سے لیا ہے جس نے پہلی بار اپنی ایک تحریر میں یہودی ساہوکاروں کی مکاری اور عیاری کو واشگاف انداز میں بیان کیا ۔
(ماخوذ از نطشہ)
——————————
Transliteration
Taak Mein Baithe Hai Muddat Se Yahoodi Sood Khawar
Jin Ki Roobahi Ke Agay Haitch Hai Zor-e-Palang
The Jewish money‐lenders, whose cunning beats the lion’s prowess,
Have been waiting hopefully for long.
Khud-Ba-Khud Girne Ko Hai Pakke Huwe Phal Ki Tarah
Dekhiye Parta Hai Akhir Kis Ki Jholi Mein Frang!
Europe is ready to drop like a ripe fruit,
Let’s see in whose bag it goes.
(Makhooz Az Natche)
Adapted from Nietzsche
————————–