علامہ اقبال شاعریملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض

نشاں يہي ہے زمانے ميں زندہ قوموں کا

(Armaghan-e-Hijaz-34)

Nishan Yehi Hai Zamane Mein Zinda Qaumon Ka

(نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا)

It is the sign of living nations

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

معانی: صبح و شام: ہر روز، ہر لمحہ ۔ تقدیر: قسمت ۔ نشاں : پتہ ۔
مطلب: جو قو میں زندہ ہوتی ہیں ان کا پتہ یہ ہے کہ ہر لمحہ ان کی قسمت بدلتی رہتی ہے ۔ وہ عمل کی راہ پر گامزن ہو کر اور اپنی مخالف قوتوں کو زیر کر کے ہر لمحہ آگے بڑھتی رہتی ہیں ان کا ہر لمحہ پہلے لمحہ سے بہتر ہوتا ہے ۔

———————

کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں

معانی: صدق: سچائی، دیانت ۔ کمال: انتہا ۔ مروت : انسانوں کا آپس میں حسن سلوک، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا ۔ فطرت: قدرت ۔ تقصیر: غلطی، لغزش، کوتاہی ۔
مطلب: زندہ قوموں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ اس کے افراد سچائی، دیانت، آپس کے حسن سلوک اور ہمدردی اور آپس میں ایک دوسرے کی بھلائی چاہنے کے جذبوں اور اصولوں کو انتہائی حد تک نبھاتے ہیں ۔ زندگی کے کسی شعبہ میں خیانت نہیں کرتے اور آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے سے بچتے ہیں ۔ ان کی نیت کی اس صفائی کو دیکھتے ہوئے قدرت بھی ان کی ایسی خطائیں ، لغزشیں اور غلطیاں معاف کر دیتی ہے اور سہواً یا اتفاقاً ان سے سرزد ہو جاتی ہیں ۔

———————

قلندرانہ ادائیں ، سکندرانہ جلال
یہ اُمتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں

معانی: قلندرانہ : قلندر کی طرح، قلندر وہ شخص ہوتا ہے جو غیر اللہ سے ہر تعلق ختم کر کے صرف خدا کی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خدا کے بھروسے پر جو کچھ اس کے جی میں آتا ہے کر گزرتا ہے ۔ ادا: طرز عمل ۔ جلال: دبدبہ، شوکت ۔ امت: قوم ۔ برہنہ: ننگی ۔ شمشیر: تلوار ۔
مطلب: زندہ قوموں کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ ان کے افراد اپنے طرز عمل میں اور اپنے رویے میں قلندر جیسا بے نیازانہ حسن رکھتے ہیں وہ ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف اپنی اور اپنی قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ ان کی شوکت اور دبدبے کی دھاک اسی طرح اہل عالم پر بیٹھ جاتی ہے جس طرح قدیم یونان کے بادشاہ سکندر اعظم نے اپنے وقت میں دنیا والوں پر بٹھائی تھی ۔ مراد ہے ان میں جمال اور جلال دونوں موجود ہوتے ہیں ۔ وہ امن کے زمانے میں اور آپس میں سلوک کے حساب سے سراپا حسن ہوتے ہیں ۔ نرمی اور ملائمت سے کام لیتے ہیں ۔ جب مخالفوں اور دشمنوں پر رعب بٹھانے کا وقت آئے تو وہ سکندر کی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ ایسی قو میں جن کے افراد کی دو صفات کا ابھی ذکر کیا گیا ہے دنیا میں ننگی تلوار کی مانند ہوتی ہیں ۔ ان کی آزادی اور ترقی کے راستے میں جو رکاوٹ بھی آتی ہے اسے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتی رہتی ہے ۔

———————

خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں

معانی: خودی: اپنی پہچان ۔ مرد خود آگاہ: اپنی پہچان کر چکنے والا آدمی ۔ جمال: حسن ۔ جلال: شوکت، دبدبہ ۔ تفسیر: شرح ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے کلام کے بنیادی مضمون خودی کی طرف آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی پہچان کر کے اور اپنے جوہر بنیادی کو بروئے کار لا کر اپنی صلاحیتوں اور مقام سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس میں جمال اور جلال کی شانیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ حسن سے مراد یہاں چہرے کا حسن نہیں بلکہ شخصیت اور کردار کا حسن ہے ۔ شوکت اور دبدبہ سے بھی مراد مال و دولت اور دنیاوی جاہ و چشم کا رعب نہیں ہے بلکہ درویشی، فقر اور ایمان کی وہ شوکت ہے جس کے آگے ہر شوکت ہیچ ہے اور یہ شان و شکوہ غریبی میں بھی ہوتا ہے اور امیری میں بھی ۔ غریبی میں وہ اللہ کے سوا ہر کسی سے بے نیازی اورر امیری میں فقیری رویہ زندگی کی بدولت پیدا ہوتا ہے ۔ یوں سمجھئے کہ خودی ایک کتاب کی مانندہے اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ اسی کی شرح ہے ۔ خودی ہو گی تو آدمی میں وہ حسن اور وہ شوکت پیدا ہو گا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اگر یہ نہیں تو چہرے کا اڑ جانے والا رنگ اور حسن اور اقتدار عہدہ اور مال و دولت کا جھوٹا دبدبہ تو آدمی میں ہو سکتا ہے اصل حسن اور اصل شوکت جس سے آدمی میں شان آدمیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے اس کا شرف قائم رہتا ہے اس میں نہیں ہوتی ۔ اپنے اندر اس دو رخی شان کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اپنی معرفت حاصل ہو ۔ اسے اپنی پہچان ہو جائے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں ۔ اپنے آپ سے آگاہ ہونے والا ایسا شخص حقیقی مرد ہوتا ہے ورنہ وہ جنس کے اعتبار سے تو مرد ہو سکتا ہے حقیقت میں مخنث سے بھی بد تر ہوتا ہے ۔

———————

شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں

معانی: شکوہ: شان، شوکت، دبدبہ ۔ عید: مسلمانوں کا مذہبی تہورا جو روزوں کے اختتام اور حج کی ادائیگی کے موقع پر دو دفعہ آتا ہے ۔ قبول: مقبول ہونا ۔ حق: خدا ۔ فقط: صرف ۔ مرد حر: آزاد مرد ۔ تکبیر: نعرہ اللہ اکبر ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ دوسری اقوام جو اس وقت روئے زمین پر غلبہ رکھتی ہیں اس وجہ سے سربلند ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں انھوں نے علم تسخیر کائنات اور جتماع قوت و کردار کے سبب شان و شکوہ پیدا کر لیا ہے ۔ لیکن مسلمان قوم نے اس طرف دھیان نہیں دیا اس لیے وہ مغلوب ہے ۔ حالانکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ اگر تم مومن ہو تو تم ہی دوسروں پر فوقیت رکھو گے ۔ تم ہی اعلیٰ ہو گے ۔ مسلمان کے اعلیٰ اور فوق نہ ہونے سے صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ نام کا مسلمان ہے اور اس میں ایمان کا وہ جذبہ نہیں جو اسے مومن بنا کر دنیا میں فوق بنا سکتا ہے ۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہم عید اور حج کے موقع پر بہت بڑا اجتماع کر لینے، رنگ برنگ کے کپڑے پہن لینے اور قربانی کے بکرے ذبح کرنے اور اپنی شان سمجھتے ہیں ۔ علامہ کہتے ہیں کہ بے شک یہ بھی اظہار شان کا ایک طریقہ ہے لیکن اگر مسلمان آزاد نہ ہو اور ہر شعبہ زندگی میں دوسروں کی غلامی اختیار کئے ہوے ہو تو پھر یہ شان جھوٹی اور باطل ہے ۔ ایسے موقعوں پر یا کسی اور مناسب وقت میں تکبیر کے نعرے لگانا کہ اللہ سے سب بڑا ہے خدا کے نزدیک قابل قبول نہیں کیونکہ اگر اللہ ہی واقعی ہر شے سے بڑا ہے تو پھر اے مرد مسلمان تو نے دوسروں کی آقائیت کو کیوں تسلیم کر رکھا ہے ۔ تو کس لیے غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ کیوں خدا کو چھوڑ کر غیر خدا کا محتاج ہے کیوں اللہ کے بجائے نفس کے بتوں کے آگے جھکا ہوا ہے ۔ تیری نماز، تیری اذان، تیرے حج، تیری عید، تیری جلسے اور تیرے جلوس میں یہ نعرہ جو لگایا جاتا ہے کہ اللہ اکبر ہے محض نمائشی ہے رسمی ہے ۔ جس دن واقعی تو نے اللہ کو اکبر تسلیم کر لیا تو اپنے اسلاف کی طرح تو دنیا میں پھر سربلند ہو جائے گا

———————

حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں

معانی: حکیم: حکمت والا، عقل والا، فلسفی ۔ میری نوا: میری آواز، میری شاعری ۔ راز: بھید ۔ کیا جانے: نہیں جان سکتا ۔ ورائے عقل: عقل سے اوپر ۔ اہل جنوں : جنوں والے ۔ تدبیر: منصوبہ، کوشش ۔
مطلب: میں نے اپنی شاعری کے ذریعے جو صدا بلند کی ہے جو پیغام خصوصاً وہ پیغام جس کا ذکر مندرجہ بالا اشعار میں ہے مسلمانوں کو خصوصاً اور اہل دنیا کو عموماً دیا ہے اس کی حقیقت کو عقل پرست اور روشن دماغ والے نہیں پہنچ سکتے ۔ کیونکہ میری باتوں اور پیغام کی تفہیم یا سمجھنے کا تعلق شدت عشق سے ہے اور جو بات عشق کہتا اور سمجھتا ہے اس کو عقل نہ کہہ سکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے ۔ عشق سے مراد وہ عشق نہیں جس میں ہوس اور جنس ہوتی ہے بلکہ یہ اس سے الگ ایک جذبہ ہے جس کے تحت عاشق اپنی مرضی کو اپنے سے برتر ہستی کی مرضی میں گم کر دیتا ہے اور اپنے قول و فعل ، حرکات و سکنات فکر و عمل وغیرہ میں اس برتر ہستی کو کارفرما پاتا ہے ۔ اور اسکی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔ یہ ہستی اللہ کی ذات، اللہ کے رسول ﷺ کی ذات اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تابع فرمان اور ان کی صفات کی آئنہ دار کسی مرشد، پیر یا ولی کی ذات ہوتی ہے ۔ علامہ کے کلام میں اس عشق سے مراد عموماً رسول اللہ ﷺ ہوتا ہے یہی عشق جب اتنی شدت اختیار کر لے کہ عاشق کو ہمہ وقت اپنے محبوب کی لگن لگی رہے اور یہ دھن اس پر اس طرح سوار ہو کہ اس سے سوا اسے کچھ سوجھے ہی نہیں جنون کہلاتا ہے ۔

———————

Translitation

Nishan Yehi Hai Zamane Mein Zinda Qoumon Ka
Ke Subha-O-Sham Badalti Hain In Ki Taqdeerain

It is the sign of living nations
their fate changes day and night;

Kamal-E-Sidq-O-Marawwat Hai Zindagi In Ki
Maaf Karti Hai Fitrat Bhi In Ki Taqseerain

their life is sincerity and generosity to perfection,
Nature too forgives their follies;

Qalanderana Ada’en, Sikandarana Jalal
Ye Ummatain Hain Jahan Mein Barhana Shamsheerain

in manners qalandar‐like, in majesty as Iskander:
these people are like naked swords.

Khudi Se Mard-E-Khud Agah Ka Jamal-O-Jalal
K Ye Kitab Hai, Baqi Tamam Tafseerain

Beauty and majesty of a self‐conscious man flows from khudi:
it is the text, the rest are commentaries.

Shikwa-E-Eid Ka Munkir Nahin Hun Mein, Lekin
Qabool-E-Haq Hain Faqat Mard-E-Hur Ki Takbeerain

I don’t deny the splendour of the days of ‘Id,
but alas! only the takbirs of free men are acceptable to God.

Hakeem Meri Nawa’on Ka Raaz Kya Jane
Wara’ay Aqal Hain Ahl-E-Junoon Ki Tadbeerain

What can the sage know my songs’ secret?
the words of man of madness are beyond reason’s ken.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button