بال جبریل (حصہ اول)علامہ اقبال شاعری

ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز

ضمیر لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

معانی: ضمیر لالہ: لالے کے پھول کی اندرونی حالت ۔ مئے لعل: سرخ شراب ۔ لب ریز: بھر گیا ۔ اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز: صوفی نے پرہیز چھوڑ دی تو شراب کی طرف لپکا ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ میں تو ایک ایسے لالے کے پھول کے مانند ہوں جس کا ضمیر شراب سرخ سے لبریز ہو چکا ہے ۔ بالفاظ دگر ایک عام فرد تو ہر جائز و ناجائز شے کو قبول کر لیتا ہے لیکن وہ لوگ جو مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ان کو کیا ہو گیا ہے کہ چشم زدن میں ہی اپنے مفادات کی خاطر مذہبی اصولوں کی نفی کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔

بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز

معانی: بساط: چوپٹ، بچھونا ۔ پرویز: ایرانی بادشاہ ۔
مطلب: عشق الہٰی اتنی بڑی قوت ہے کہ جب وہ کسی فرد کے دل میں گھر کر لیتا ہے تو لاچار و نامراد ہونے کے باوجود تخت شاہی کا مالک بن جاتا ہے یعنی عشق الہٰی کے طفیل ایک بے سروسامان فرد بھی انتہائی ارفع اور بلند مدرج پر پہنچ جاتا ہے ۔

پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز

معانی: فرسودہ: پرانا ۔ نوخیز: نیا نیا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے رب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مالک دوسرا تیری پوری کائنات اور اس کا نظام بوسیدہ اور پرانا ہو چکا ہے ۔ میں تو ایک ایسی کائنات اور نظام کا خواہاں ہوں جو نیا اور منفرد ہو جس میں تازگی بھی ہو اور شگفتگی بھی ہو ۔

کسے خبر ہے کہ ہنگامہَ نشور ہے کیا
تری نگاہ کی گردش ہے میری رُستاخیز

معانی: ہنگامہَ نشور: قیامت کو اٹھنا ۔ رُستاخیز: گرنا اٹھنا وغیرہ ۔
مطلب: قیامت کا حشر کیا ہے اس کی ہیءت اور نوعیت کیا ہے یہ تو ایک سوالیہ نشان کے مانند ہے جس کا جواب اس لیے ممکن نہیں کہ قیامت کی حقیقت سے تو اسی وقت کوئی آشنا ہو سکتا ہے جب وہ اسے اپنی آنکھ سے دیکھ لے ۔ میرے لیے تو اے محبوب تیری نگاہ التفات اور لطف عنایات سے محرومی کا عمل ہی قیامت سے کم نہیں ہے یعنی میں تو اس صورت حال کو ہی قیامت تصور کرتا ہوں ۔

نہ چھین لذتِ آہِ سحر گہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز

معانی: لذت آہِ سحر گہی: صبح سویرے اٹھ کر عبادت کا مزا ۔ التفات آمیز: ملنے والا یعنی تغافل ۔
مطلب: خدائے ذوالجلال علی الصبح مجھے تجھ سے آہ و فریاد میں جو لطف حاصل ہوتا ہے مجھے تو وہی کافی ہے اپنے تغافل میں لطف و کرم کی آمیزش نہ کر کہ یہ میرے جذبہ عشق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔

دلِ غمیں کے موافق نہیں ہے موسمِ گل
صدائے مرغِ چمن ہے بہت نشاط انگیز

معانی: دلِ غمیں : غمزدہ دل ۔ موسمِ گل: موسم بہار ۔ صدائے مرغِ چمن: باغ کے پرندے کی چہچہاہٹ ۔ نشاط انگیز: خوشگوار ۔
مطلب: موسم بہار میرے دل رنجور کو راس نہیں آتا کہ یہ ماحول میری فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا ہر چند کہ اس موسم میں خوشنما اور خوش نوا پرندوں کی صدائیں بڑی کیف آور ہوتی ہیں تاہم میرے دل رنجور کو یہ بھی پسند نہیں ۔

حدیث بے خبراں ہے، تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستیز

مطلب: بے خبر لوگوں کی بات ہے کہ زمانے سے صلح کرنی چاہیے لیکن اگر زمانہ صلح نہ کرے تو اس سے لڑائی کرنی چاہیے یعنی اس پر حاوی ہونا چاہیے ۔

———————–

Translation

Zameer-e-Lala Mai’ay La’al Se Huwa Labraiz
Ishara Pate Hi Sufi Ne Tor Di Parhaiz

Bichayi Hai Jo Kahin Ishq Ne Bisat Apni
Kiya Hai Iss Ne Faqeeron Ko Waris-e-Parvaiz

Purane Hain Ye Sitare, Falak Bhi Farsudah
Jahan Woh Chahiye Mujh Ko Ke Ho Abi Naukhaiz

Kise Khabar Hai Ke Hangama’ay Nishor Hai Kya
Teri Nigah Ki Gardish Hai Meri Rasta Khaiz

Na Cheen Lazzat-e-Aah-e-Sahar-Gehi Mujh Se
Na Kar Nigah Se Tughafil Ko Iltifat Amaiz

Dil-e-Ghameen Ke Muwafiq Bahin Hai Mousam-e-Gul
Sada’ay Murgh-e-Chaman Hai Bohat Nishaat Angaiz

Hadees-e-Bekhabran Hai, Tu Ba-Zamana Ba-Saaz
Zamana Ba Toon-Saazd, Tu Ba Zamana Sataiz

———————-

By dint of Spring the poppy‐cup, With vintage red is over‐flown

By dint of Spring the poppy‐cup, With vintage red is over‐flown:
With her advent the hermit too temperance to the wind hath thrown.

When great and mighty force of Love at some place its flag doth raise,
Beggars dressed in rags and sack become heirs true to King Parvez.

Antique the stars and old the dome in which they roam about and move:
I long for new and virgin soil where my mettle I may prove.

The stir and roar of Judgement Day hath no dread for me at all:
Thine roving glance doth work on me like the Last Day’s Trumpet Call.

Snatch not from me the blessing great of sighs heaved at early morn:
With a casual loving look weaken not thine fierce scorn.

My sad and broken heart disdains the Spring and dower that she brings:
Too joyous the song of nightingale! I feel more gloomy when it sings.

Unwise are those who tell and preach accord with times and the age.
If the world befits you not, A war against it you must wage.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button