سیاسیات مشرق و مغربعلامہ اقبال شاعری

نصيحت

اک لردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

معانی: لرد: انگریز لفظ لارڈ کا اردو بنایا گیا ہے ۔ سیر ہونا: پر ہونا،بھر جانا ۔ پسر: بیٹا ۔ فرنگی: انگریز ۔
مطلب: ایک انگریز لارڈ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تو ایسے نظارہ کی تلاش کر کہ جس سے تیری آنکھ نہ بھرے اور دیکھنے کی آرزو باقی رہے ۔

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم
بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدہَ شیر

معانی: برہ: بھیڑ کا بچہ ۔ فاش کریں : ظاہر کر دیں ۔ قاعدہَ شیر: شیر کے طور طریقے ۔
مطلب: اگر کسی بھیڑ کے بچے کو شیری کے طور طریقے بتا دیئے جائیں تو یہ اس بے چارے کے لیے بہت بڑے ظلم کی بات ہو گی ۔ دراصل فرنگی لارڈ یہ کہنا چاہتا ہے کہ غلاموں پر حکومت کے بھید ظاہر نہیں کرنے چاہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ غلام حاکمیت کے راز سمجھ کر آزاد ہونے کی کوشش کرے اورر ہماری جگہ وہ حکمران بن بیٹھے ۔ دراصل یہ حاکم کے حق میں ظلم ہو گا لیکن یہاں غلام کو راز نہ بتانے کی پالیسی کے تحت اس نے غلاموں کے حق میں ظلم کہہ دیا ہے تا کہ غلام آزاد ہونے اور حاکم بننے کی کوشش ہی نہ کریں ۔

سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

معانی: راز ملوکانہ: شاہانہ بھید ۔ تیغ: تلوار ۔ زیر کرنا: مغلوب کرنا یا ماتحت بنانا ۔
مطلب: فرنگی وڈیرہ اپنے بیٹے کو مزید یہ سمجھاتا ہے کہ شاہنشاہی یا حاکمیت کے بھید اپنے سینے میں چھپائے رکھنا بہتر ہے ۔ اور وہ بھید اس نے اگلے مصرعے میں اور اس کے بعد آنے والے دو شعروں میں بیان کر دیے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ غلام لوگوں کو تلوار وں کے ذریعے غلام رکھنے یا اپنا ماتحت رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کو غلام رکھنے کا ایک طریقہ اور ہے جو تلوار سے بھی زیادہ کارگر ہے ۔ اور اس کا ذکر اگلے شعروں میں موجود ہے ۔

  تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

مطلب: غلاموں کو ہمیشہ کے لیے محکوم رکھنے کا جو طریقہ تلوار سے بڑھ کر کارگر ہے جو حاکم قوم کے سینے میں محفوظ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان غلاموں کو ایسا نظام تعلیم دو کہ جس سے وہ اپنی شناخت کو بھول کر حاکموں کے طور طریقوں کو اپنا لیں ۔ اس طریقہ کار کو فرنگ لارڈ نے ایک ایسا تیزاب کہا ہے کہ جب غلام قوم کے لوگوں کی خودی اس میں ڈالی جائے گی تو وہ ایسی ملائم ہو جائے گی کہ حاکم اسے جس سمت پھیرنا چاہے وہ پھر جائے گی ۔

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

معانی: اکسیر: تانبے یا مٹی کو سونا بنانا ۔ ہمالہ: دنیا کا سب سے بلند پہاڑ جو ہندوستان کی شمالی سرحد کے ساتھ ساتھ کافی دور تک جاتا ہے ۔
مطلب: اور تعلیم کا یہ تیزاب ان غلاموں کے حق میں تانبے یا مٹی کو سونا بنانے کی بجائے اور الٹ کام کرے گا اور وہ یہ کہ وہ نظام تعلیم ان لوگوں کے مضبوط عقائد اور خود شناس شخصیتوں کے سونے کے ہمالہ کو مٹی کا ڈھیر بنا کر رکھ دے گا اوریہ بات پچھلی ڈیڑھ دو صدی کے انگریزی نظام تعلیم کے حصول سے ثابت بھی ہو چکی ہے ۔ اور اس حد تک ثابت ہو چکی ہے کہ سیاسی آزادی کے باوجود برصغیر کے لوگ مغربی تہذیب ، تمدن اور ثقافت کے رنگ میں ڈھل چکے ہیں اور ان کی اپنی آزادانہ شناخت ختم ہو چکی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button