علامہ اقبال شاعریملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض

پاني ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سيماب

(Armaghan-e-Hijaz-22)

Mullah Zadeh Zaigham Lolabi Kashmiri Ka Bayaz

(ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض)

The Poetic Notebook Of Mullazade Zaigham Of Laulab

پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغانِ سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے                  وادیِ                  لولاب

تعارف: بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ، کے عنوان سے لکھی جانے والی نظم میں جس طرح علامہ نے بڈھا بلوچ ایک خیالی کردار تخلیق کیا ہے اسی طرح مندر بالا عنوان میں ملا ضیغم کے نام سے ایک فرضی شخص کا نام لیا گیا ہے جس کا تعلق برصغیر کے شمال کے ایک خوبصورت علاقہ کشمیر کی ایک وادی لولاب سے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی یادداشتوں کی ایک فرضی بیاض (کاپی یا ڈائری) بتائی گئی ہے جس میں درج اس کے فرضی خیالات کو اقبال نے 19 نظموں میں قلم بند کیا ہے ۔ ان سب کا مقصود کشمیریوں کو کشمیری ہندو راجہ کی غلامی سے آزاد ہونے کا یقین کرنے، ان کو آزادی کی قدر و قیمت بتانے اور ان کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو جگانے سے ہے ۔
معانی: سیماب: پارہ ۔ مرغان سحر: صبح کے پرندے ۔ بے تاب: بے قرار ۔
مطلب: اس نظم میں وادی لولاب کو یا اس وادی کے باشندوں کو خطاب کرتے ہوئے علامہ ملا ضیغم لولابی کی زبان سے کہتے ہیں کہ اے لولاب کی وادی تو بہت خوبصورت ہے ۔ تیرے چشموں کا پانی پارہ کی طرح صاف، شفاف، سفید اور تڑپتا ہوا ہے اور تیری فضاؤں میں صبح کے وقت چہچہانے والے پرندے ادھر سے ادھر اڑتے پھرتے ہیں ۔

———————-

گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندہَ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
اے                   وادی                 لولاب

معانی: صاحب ہنگامہ: ولولہ یا شورش رکھنے والا ۔ منبر و محراب: مسجد کی دو جگہیں جن میں سے منبر پر بیٹھ کر خطیب خطبہ دیتا ہے اور محراب کے نیچے کھڑے ہو کر امام امامت کراتا ہے ۔ دین: مذہب اسلام ۔ بندہ مومن: صاحب ایمان ۔
مطلب: اگر تیری مسجدوں کے خطیب اور امام اپنے دلوں میں دین کے لیے صحیح تڑپ اور ولولہ نہیں رکھتے اور اگر مسجد کے منبروں اور محرابوں سے لوگوں میں آزادی اورر جہاد کا ولولہ پیدا کرنے والی آوازیں نہیں اٹھتیں تو پھر ان کے دین کو دین کہنا غلط ہے ۔ دین تو سعی و عمل اور آزادی کا سبق دیتا ہے ۔ اے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والے شخص سمجھ لے کہ جس دین میں یہ باتیں نہیں ہیں وہ دین موت اور خواب کے برابر ہے ۔ اے وادی لولاب خدا کرے تیرے علمائے دین میں اور تیرے اماموں اور خطیبوں میں دین کی صحیح سمجھ پیدا ہو جائے اور انہیں تیرے باشندوں تک اس کے صحیح ابلاغ کا خیال آ جائے ۔

———————-

ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز
ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب
اے                    وادیِ                 لولاب

معانی: ساز: موسیقی کا آلہ ۔ موقوف: منحصر ۔ نواہا: نوا کی جمع، نوا: آواز ۔ جگر سوز: جگر جلا دینے والی ۔ مضراب: ایک خاص قسم کا تار جسے انگلی میں پہن کر ساز کے تاروں کو چھیڑتے ہیں اور ان سے نغمہ پیدا ہوتا ہے ۔
مطلب: اس بند میں علامہ نے ساز اور اس سے متعلقہ علامتوں کے استعمال سے اپنا مفہوم واضح کیا ہے اور کہا ہے کہ اے وادی لولاب کے باشندو جس طرح کسی ساز کے ڈھیلے تاروں سے ان کو مضراب سے چھیڑنے کے باوجود جگر کو جلا دینے والے نغمے پیدا نہیں ہوتے اسی طرح جب تک تم اپنے اندر دین کے لیے صحیح جذبہ اور تڑپ پیدا نہیں کرو گے دین تم میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا ۔ یہ خطاب عام مسلمانوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور ان کے رہنماؤں خصوصاً علما اور صوفیا کے لیے بھی ۔

———————-

مُلا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہَ صوفی کی مئے ناب
اے                  وادیِ                  لولاب

معانی: ملا: دین کا نمائندہ ۔ صوفی: روحانیت کا نمائندہ ۔ نور فراست: بصیرت کا نور، معاملات کی تہ اور انجام تک پہنچانے والی روشنی ۔ بے سوز: جس میں حرارت نہ ہو ۔ میخانہ: شراب خانہ ۔ مئے ناب: خالص شراب ۔
مطلب: اے وادی لولاب آج تیرے شریعت اور طریقت کے علم برداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ شریعت کے حامل مولوی ، ملا اور علما بصیرت کے اس نور سے بے بہرہ ہیں جس سے وہ مسلمانوں کو درپیش معاملات کی اصلیت کو پا سکیں اور انجام تک کو دیکھ سکیں ۔ صوفی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس وجدان کی شراب ہے اور یہ خالص شراب پی کر آدمی اللہ میں مست اور دوسری مستی سے کنارہ کش ہو جاتا ہے وہ بھی رسم کے صوفی رہ گئے ہیں ان کے شراب خانہ میں اب وہ خالص شراب جس کو پی کر پینے والے کی روح میں حرارت پیدا ہو جائے باقی نہیں رہی ۔

———————-

بیدار ہو دل جس کی فغانِ سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے                     وادی                    لولاب

معا نی: بیدار ہوں: جاگ پڑیں ، زندہ ہو جائیں ۔ فغاں سحری: صبح کی فریاد ۔ درویش: فقیر ، روحانیت کا علم بردار ۔ نایاب ہے: ملتا نہیں ہے ۔
مطلب: مسلمان کو اور مسلمان کے معاشرے کو خالصتاً اللہ کے لیے وقف کر دینے اور اسے دیناوی حرص و ہوس سے آزاد بنا دینے کا کام صرف درویش کرتا ہے ۔ وہ جو خود اللہ بس اور باقی ہوس کے اصول کے تحت زندگی بسر کر رہا ہو اور وہ خود بخود فانی اور بحق باقی ہو اس کی صحبت کے فیض اور نگاہ کی تاثیر سے دل زندہ ہو جاتے ہیں ۔ دل زندہ ہونے سے مراد دلوں کی وہ زندگی نہیں جو ان کو ہمارے سینے میں دھڑکا رہی ہے بلکہ یہ ایک روحانی زندگی ہے جو ان کو غیر اللہ کے بتوں سے خالی کر کے اور بعد میں اللہ کو بسا کر حاصل ہوتی ہے ۔ مرد درویش کے صبح کے وہ نالے اور وہ فریادیں جو وہ ہر طرف اور ہر چیز سے منہ موڑ کر ذکر و فکر کی صورت میں کرتا ہے اس کی صحبت میں بیٹھنے والوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ان میں ایک قسم کی روحانی تبدیلی پیدا کر کے ان میں انسانیت کی اور مسلمانی کی صحیح صفات پیدا کر دیتی ہیں ۔ علامہ اس بات پر ملاضیغم کی زبان سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اب ایک مدت سے مسلمان قوم میں اس قسم کے درویش پیدا نہیں ہو رہے ۔ باپ دادا کی روحانی وراثت کی بجائے دنیاوی وراثت کے اعتبار سے تو گدی نشین جگہ جگہ نظر آئیں گے ۔ پیشہ ور، جعل ساز، لوٹ کھسوٹ کر نے والے اور اپنی خانقاہوں کی دنیاوی رونق بڑھانے والے تو بہت ملیں گے ۔ لیکن اللہ کا وہ درویش جو خالصتاً اللہ کے لیے جیتا اور مرتا تھا جو مظہر صفات الہٰی ہو کر بندہ مولا صفات بن چکا ہوتا تھا وہ جس کی مرضی اللہ کی مرضی میں گم ہوتی تھی اور اس بنا پر اللہ کی مرضی کے مطابق ہر چیز استوار کر دیتا تھا وہ جس کے ہاتھوں میں زمانے کے گھوڑے کی باگ دوڑ ہوتی تھی اور وہ اسے جدھر چاہے موڑنے کی اہلیت رکھتا تھا وہ جس کے بوریا سے تخت لرزا کرتے تھے اور وہ جس کے جھونپڑی کے آگے محل جھک جاتے تھے اب کہیں نظر نہیں آتا ۔

———————-

Transliteration

Mullah Zadah Zaigham Lolabi Kashmiri Ka Bayaz

THE POETIC NOTEBOOK OF MULLAZADE ZAIGHAM OF LAULAB  

(1)

Pani Tere Chashmon Ka Tarapta Huwa Simaab
Murghan-E-Sahar Teri Fazaon Mein Hain Betaab

Your springs and lakes  with water pulsating and quivering like quicksilver,
the morning birds fluttering about the sky, agitated and in turmoil,

Ae Wadi-e-Lolaab!

O Valley of Laulab!

Gar Sahib-E-Hangama Na Ho Manbar-O-Mehrab
Deen Banda’ay Momin Ke Liye Mout Hai Ya Khawab

When the pulpit and the niche cease to re‐create Resurrections,
faith then is dead or a mere dream, for thee, me and for all.

Ae Wadi-e-Lolaab!

O Valley of Laulab!

Hain Saaz Pe Mauqoof Nawa Ha’ay Jigar Souz
Diheele Hon Agar Taar To Bekaar Hai Mizraab

The songs of passionate heart depends on the instrument
If the strings are lose then there is no use of that instrument

Ae Wadi-e-Lolaab!

O Valley of Laulab!

Mullah Ki Nazar Noor-E-Firasat Se Hai Khali
Be-Soz Hai Maikhana’ay Sufi Ki Mai’ay Naab

The Mullah’s sight has lost  the light of penetrative discernment;
the mystic’s wine, pure and sparkling,  no longer produces frenzy,

Ae Wadi-e-Lolaab!

O Valley of Laulab!

Baidar Hon Dil Jis Ki Faghan-E-Sahari Se
Iss Qoum Mein Muddat Se Woh Darvesh Hai Nayab

A dervish  whose morning lamentation
may awaken the hearts of the people is no longer around,

Ae Wadi-e-Lolaab!

O Valley of Laulab!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button