اپنے مشرقي اور مغربي حريفوں سے
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم
بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
معانی: مسولینی اٹلی کا آمر حکمران تھا جس نے قدیم سلطنت روما کو پھر سے قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا اور اس سلسلے میں اس نے کئی کمزور ملکوں پر جن میں ابی سینیا یا حبشہ بھی شامل ہے قبضہ کر لیا تھا ۔ مسولینی کے اس اقدام پر اس کے بعض مشرقی اور مغربی حریفوں یعنی مدمقابل یا دشمنوں نے بڑی لے دے کی تھی جس کے جواب میں مسولین نے جو کچھ کہا تھا اقبال نے اسے اس نظم میں منظوم کر دیا ہے ۔ بے محل: بغیر وجہ کے ۔ معصومان یورپ: یورپ کے بے گناہ لوگ، یہ طنزاً کہا ہے ۔
مطلب: جب اٹلی کے آمر مسولینی نے اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی خاطر بعض ملکوں پر چڑھائی کر کے ان کو فتح کر لیا تو اس کے مدمقابل مغرب کے چند سیاست دانوں اور حکومتوں نے اسے مجرم ٹھہرایا جس پر اس نے ان کو جواب دیا کہ میں نے کوئی انوکھا جرم نہیں کیا ۔ یہ جرم تو تم صدیوں سے کرتے آئے ہو ۔ اس لیے اے یورپ کے وہ لوگو جو خود کو بے گناہ سمجھتے ہو خواہ مخواہ مجھ سے مت بگڑو ۔
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی میں چھاج
معانی: چھلنی: جس میں آٹا چھانتے ہیں ۔ چھاج: جس میں گندم پھٹکتے ہیں ۔
مطلب: مسولینی اپنے اعتراض کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ جو کام میں نے کیا ہے تم بھی کر چکے ہو اور تہذیب کے اوزار استعمال کر کے یعنی تہذیب پھیلانے کے بھیس میں دوسری قوموں اور ملکوں کو تم بھی فتح کر چکے ہو اس لیے تم میں اور مجھ میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔ ہاں اگر کوئی فرق ہو سکتا ہے تو وہ وسعت کا یا مقدار کا ہو سکتا ہے ۔ اس کو چھلنی اور چھاج کے الفاظ میں سمجھاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ فرق اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ جیسے تم چھلنی ہو اور میں چھاج ۔ چھلنی میں دانے آرام سے نکل جاتے ہیں اور چھاج میں پھٹک پھٹک کر کے نکالنے پڑتے ہیں ۔ یعنی تم وہ کام چپکے سے اور ڈپلومیسی سے کر لیتے ہو ۔ میں نے ذرا کھل کر کیا ہے ۔ میرا پھٹکنا یا سلطنت کو وسعت دینا کیوں برا لگ رہا ہے ۔ جب کہ ہم دونوں ایک ہی تہذیب کے فریبی وار سے دوسرے ملکوں اور قوموں کو مفتوح کرتے ہیں ۔
میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج
معانی: سودائے ملوکیت :بادشاہت کا جنوں ۔ زجاج: شیشے ۔
مطلب: میرے سر میں جو سلطنت روم کو وسیع کرنے اور رومیوں کی بادشاہت قائم کرنے کا جنوں چھایا ہوا ہے اس کو تم برا کہتے ہو ۔ کیا تم نے اپنی آہنی قوت سے دنیا کی کمزور قوموں کے شیشے نہیں توڑے ۔ اور ان کی قوت کے بل بوتے پر مفتوح و مغلوب نہیں کیا اور ان کو نہیں لوٹا ۔
یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں
راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجہ ہے ، نہ راج
معانی: عجائب: عجیب باتیں ۔ شعبدے: فریب کاریاں ، جادوگری ۔ راجدھانی: حکومت کا مرکز ۔ راجہ: بادشاہ ۔ راج: حکومت ۔
مطلب: یہ عجیب فریب کاریاں کی کی بادشاہت کی ہیں اور کس کے شاہانہ ہتھکنڈوں اور سحر سازی کا نتیجہ ہیں کہ دنیا کے ملکوں کے قدیم دارالحکومت تو موجود ہیں لیکن نہ وہاں کے بادشاہ باقی رہے اور نہ ان کی حکومت ۔ ان سب کو ملیامیٹ کر کے تم نے ان ملکوں کے دارلحکومتوں کو اپنی شہنشاہانہ حکومت میں شامل کر لیا ہے ۔
آل سیزر چوب نَے کی آبیاری میں رہے
اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج
معانی: آل سیزر: سیزر کی اولاد، یعنی اٹلی کی قوم، اٹلی کو روم بھی کہتے ہیں ۔ سیزر قدیم روما کا مشہور جرنیل تھا ۔ مشہور ہے کہ سیزر بنسری بجایا کرتا تھا ۔ چوبِ نے: بانس کی لکڑی یا بانسری ۔ بنجر: بیابان ۔ بے خراج: بغیر تاوان اور محصول وصول کیے ۔
مطلب: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ سیزر کی قوم یعنی اٹلی والے سیزر کی طرح بنسری بجانے میں لگے رہیں اور تم دنیا کو اس طرح فتح کرتے ہو کہ آبادیاں تو کیا بیابانوں میں رہنے والوں سے بھی محصولات اور تاوان وصول کر کے اپنی قوم کو خوش حال کرتے رہو ۔ روم دانوں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح علاقوں کو فتح کر کے اپنے آپ کو مفتوح علاقوں کے لوٹ مار سے خوشحال بنائیں ۔
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج
معانی: بے نوا: غریب، بے مایہ ۔ صحرا نشین: صحرا میں رہنے والے ۔ خیام: خیمے ۔ کشت دہقاں : کسانوں کے کھیت ۔ تخت و تاج: بادشاہ اور ان کے تخت و تاج، یعنی ان کی شاہی اور ان کے لوازمات ۔
مطلب: تم نے تو صحراؤں میں رہنے والے غریب اور بے مایہ لوگوں کے خیموں تک بھی لوٹے ہیں ۔ تم نے تو کسانوں کی کھیتیاں بھی لوٹی ہیں ۔ تم نے تو مختلف ملکوں کی بادشاہوں کو بھی ختم کیا ہے ۔ اور خود باشاہ بن بیٹھے ہو ۔ اور اپنی قوم کو خوش حال کرنے اور دوسروں کو بے مایہ اور بے سرمایہ بنانے کے تم نے ہر قسم کے طریقے اپنائے ہیں ۔ مجھے طعنہ کیوں دیتے ہو ۔
پردہَ تہذیب میں غارت گری، آدمی کشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
معانی : غارت گری: لوٹ مار ۔ آدم کشی: لوگوں کو قتل کرنا ۔ روا رکھنا: جائز سمجھنا ۔
مطلب: یہ بہانہ بنا کر کہ ہم تو دوسرے ملکوں کو فتح کر کے وہاں کے لوگوں تک اپنی تہذیب لے جانا چاہتے ہیں اور انہیں مہذب بنانا چاہتے ہیں ۔ تم نے مفتوح ممالک میں لوٹ مار بھی کی ہے اور وہاں کے لوگوں کو قتل بھی کیا ہے ۔ اگر یہ بات تمہارے لیے جائز ہے اور تم تین چار صدیوں سے اس لوٹ مار اور قتل و غارت میں لگے ہوئے ہو تو آج میں نے اگر کسی ملک کو فتح کر لیا ہے تو مجھے کیوں برا کہتے ہو ۔ میں بھی تو تمہاری طرح مفتوح علاقے کے لوگوں کو مہذب بنانے کے لیے یہ کاروائی کر رہا ہوں ۔
———
ء کو بھوپال (شيش محل) ميں لکھے گئے1935 اگست 22