پرواز
کہا درخت نے اک روز مرغِ صحرا سے
ستم پہ غمکدہَ رنگ و بو کی ہے بنیاد
معانی: مرغِ صحرا: صحرا کے پرندے سے ۔ ستم: ظلم ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے دو کرداروں کے مکالمے اور ان کی ذاتی صلاحیت کی بنیاد پر یہ حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو شخص سطحی نظر کا حامل ہوتا ہے وہ عملی طور پر نہ ترقی کر سکتا ہے نا ہی زندگی میں عروج حاصل کر سکتا ہے کہ بلند پروازی کے لیے بلند حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چار اشعار کی اس مختصر نظم میں علامہ نے ایک درخت اور مرغ صحرا کے مابین مکالمے کو یوں نظم کیا ہے ۔ جیسا کہ بعض مقامات پر بتایا گیا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے لیے کہیں کہیں انسان کے بجائے مختلف اشیاء کے حوالے سے بات کی ہے ۔ یہاں بھی اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک درخت اور ایک جنگلی پرندے کے مابین ایسا مکالمہ نظم کیا ہے جس کی اساس خود ان کی حکمت و دانش پر ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ ایک درخت نے جنگلی پرندے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالم رنگ و بو جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں دیکھا جائے تو اس کی اساس ظلم و ستم پر قائم ہے ۔
خدا مجھے بھی اگر بال و پر عطا کرتا
شگفتہ اور بھی ہوتا یہ عالمِ ایجاد
معانی: شگفتہ: کھلا ہوا ۔ عالمِ ایجاد: دنیا ۔
مطلب: ایک تیری طرح اگر میں بال و پر رکھتا تو اڑ کر بلندی پر پہنچ سکتا تھا اور اس جہان کی چہل پہل اور شگفتگی میں مزید اضافہ ہو جاتا یعنی میں بھی ترقی کی منازل طے کر سکتا ۔
دیا جواب اُسے خوب مرغِ صحرا نے
غضب ہے داد کو سمجھا ہوا ہے تو بیدار
معانی: داد: تلاش ۔ بیداد: زیادتی ۔
مطلب: درخت کی بات سن کر جنگلی پرندہ حیرت زدہ ہوئے بغیر یوں بولا! کہ مجھے اس امر پر یقینا تعجب ہوا کہ تو انصاف اور حق پرستی کو ظلم و ستم سمجھ رہا ہے مگر اس نکتے سے آگاہ نہیں ۔
جہاں میں لذتِ پرواز حق نہیں اس کا
وجود جس کا نہیں جذبِ خاک سے آزاد
معانی: جذبِ خاک: خاک سے چمٹے رہنا ۔
مطلب: یہ جان لے کہ سطحی سوچ اور نظر رکھنے والا کبھی بلند مقام حاصل نہیں کر سکتا ۔ نا ہی ایسا فرد اس استحقاق کا روادار ہو سکتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ درخت کی نشوونما تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کی جڑیں مٹی میں پیوست ہوں ۔ اگر یہ جڑیں مٹی سے باہر آ جائیں تو درخت مرجھا کر رہ جاتا ہے یہی عمل اسے لذت پرواز سے محروم رکھتا ہے ۔ چنانچہ اسے ظلم و ستم سے تعبیر کرنا کسی طرح مناسب نہیں ۔ پرواز کا حق تو اسی کو ہوتا ہے جو خود کو مٹی سے آزاد کر لے ۔
Sitam Pe Gham Kada-e-Rang-o-Bu Ki Hai BunyadThe tree said to a bird of the desert one day:
“Creation is founded on the principle of injustice;
Shugufta Aur Bhi Hota Ye Alam-e-AejadFor the Creation could have been so much more pleasant
If I had also been granted the gift of flight.”
Ghazab Hai, Dad Ko Samjha Huwa Hai Tu Bedad!The bird gave him a good reply:
“Woe! You regard justice to be injustice;
Wujood Jis Ka Nahin Jazb-e-Khak Se AzadHe is not entitled to fly in this world,
Whoever is not free from earth‐rootedness.”