با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

ہم مشرق کے مسکينوں کا دل مغرب ميں جا اٹکا ہے

ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے

معانی: مسکین: بے کس، محتاج، غریب ۔ دل اٹکنا: محبت ہو جانا ۔ کنٹر: ڈبا، ڈبے ۔ بلوری: شیشے کا ۔ مٹکا: مٹی کا گھڑا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم مشرق کے لوگ اب مغربی تہذیب کی طرف مائل ہو چکے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی تہذیب میں جو چمک دمک ہے وہ مشرق کی قدیم تہذیب میں نہیں ہے ۔ مغرب میں بڑی تیزی کے ساتھ نظریات اور فکر میں تبدیلی آ رہی ہے جب کی مشرق کے لوگ اپنی پرانی ڈگر سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔

اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے

معانی: اپنی راہ پر قائم: اپنے مقصد، بات پر ڈٹا ہوا ۔ ہٹ کا پکا: ضد یا اصرار پر اڑا رہنے والا ۔
مطلب: مغرب پرست اس دور میں سب مٹ کر رہ جائیں مگر وہ باقی رہ جائے گا جو اپنی راہ پر قائم ہے اور جو اپنی ضد پر اڑا رہنے والا ہے جو اپنے مقصد سے کبھی پیچھے ہٹنے والا نہیں ۔

اے شیخ و برہمن سنتے ہو! کیا اہلِ بصیرت کہتے ہیں
گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

معانی: اہل بصیرت: دانا، عقلمند ۔ گردوں : آسمان ۔ دے پٹکا: اوپر سے نیچے گرا دینا، زوال کا شکار کرنا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال شیخ و برہمن یعنی مسلمانوں اور ہندووَں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنو اہل بصیرت کیا کہتے ہیں کہ جو قو میں باہم دست و گریبان رہیں اور آپس میں اتحاد و اتفاق قائم نہ رکھ سکیں وہ انتشار و زوال کا شکار ہو ئیں اور پستی کی تہہ میں گرتی چلی گئیں ۔

یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستورِ محبت قائم تھا
یا بحث میں اُردو ہندی ہے، یا قربانی یا جھٹکا ہے

معانی: باہم پیار کے جلسے: آپس میں پیار محبت کے ساتھ محفلیں جمانے کا عمل ۔ اردو ہندی: مسلمان اردو کو اور ہندو ہندی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کہتے تھے ۔
مطلب: وہ زمانہ بھی تھا جب ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مل کر محفلیں سجاتے تھے لیکن اب ان میں نفرت اور نفاق کا یہ عالم ہے کہ کبھی مل بیٹھنے کا موقع بھی ملا تو ان میں یا تو اردو ہندی کی بحث چھڑ جاتی ہے یا قربانی اور جھٹکے کے معاملات پر تلخی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ان میں قطعی طور پر قوت برداشت نہیں ہو رہی اور چھوٹی چھوٹی باتیں ان کے مابین سر پھٹول کا سبب بن جاتی ہیں ۔

———————-

Transliteration

Hum Mashriq Ke Maskeenon Ka Dil Maghrib Mein Ja Atka Hai
Waan Kantar Sub Ballori Hain Yaan Aik Purana Matka Hai

Iss Dour Mein Sub Mit Jaen Ge, Haan! Baqi Woh Rehjaye Ga
Jo Qaeem Apni Rah Pe Hai Aur Pakka Apni Hat Ka Hai

Ae Shiekh-o-Barhman, Sunte Ho! Kya Ahl-e-Basirat Kehte Hain
Gardoon Ne Kitni Bulandi Se In Qoumon Ko De Tapka Hai

Ya Baham Pyar Ke Jalse The, Dastoor-e-Mohabbat Qaeem Tha
Ya Behas Mein Urdu Hindi Hai Ya Qurbani Ya Jhatka Hai

———————

We poor Easterners have been entangled in the West
All crystal decanters are there, only an old earthen jar is here

All will be annihilated in this age except the one
Who established in his ways and firm in his thought is

O Shaikh and Brahman do you listen to what people with insight say?
Heaven from great heights has thrown down those nations

Who formerly had assemblies of affection with firm love
Now under discussion is Urdu and Hindi or Dhibh and Jhatka

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button