با ل جبر یل - منظو ما ت

فرشتوں کاگيت

عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گرِ ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی

معانی: بے زمام: لگام کے بغیر، بے قابو ۔ نقش گرِ ازل: ازل کا پیدا کرنے والا، اللہ تعالیٰ ۔
مطلب: اس نظم کے اس اولین شعر میں فرشتے باری تعالیٰ کے حضور استدعا کرتے ہیں کہ تو نے انسان کو عقل و دانش اور عشق و محبت کے جذبوں سے اس لیے نوازا تھا کہ وہ تیرے مشن کی تکمیل کر سکے لیکن صورت یہ ہے کہ نہ وہ عقل و دانش سے کوئی مثبت کام لے سکا نا ہی معاشرے میں عشق و محبت کے جذبے کو عام کر سکا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تو نے جو نقش وضح کیا تھا وہ عملی سطح پر ابھی تک ادھورا ہے ۔

خلقِ خدا کی گھات میں رِند و فقیہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی

معانی: رند: شرابی ۔ فقیہ: عالم لوگ ۔ میر: حاکم ۔ پیر: رہنما ۔
مطلب: اے مالک دو جہاں ! آج بھی صورت حال یہ ہے کہ رند ہو یا فقیہ، امیر ہو جا کوئی سجادہ نشیں یہ سب عوام الناس کو اپنے مفاد کے لیے آلہ کار بنانے میں مصروف ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیری دنیا میں جو حالات پہلے تھے ان میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ وہ حالات جوں کے توں ہیں ۔

تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی

معانی: بندہ: غریب ۔ گرد: آوارہ ۔ خواجہ: اونچی کوٹھی والا ۔
مطلب: تیرے روساَ کا حال تو یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے میں مصروف ہے اور ہر جائز و ناجائز طور پر اپنی تجوریاں بھر رہا ہے جب کہ تیرے درویش اپنے حال پریشاں میں ہی مست نظر آتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں عام آدمی تو گلی کوچوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے اور آقاؤں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بلند و بالا محلات میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔

دانش و دین و علم و فن بندگیِ ہوس تمام
عشقِ گرہ کشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی

معانی: بندگیِ ہوس: لالچ کی عبادت ۔ گرہ کشا: مطلب حل کرنے والا ۔
مطلب: عقل و دانش اور علم و فن کے نام لیوا ان خصوصیات کو ذاتی مفادات اور برتری کے لیے استعمال کر رہے ہیں حالانکہ ان تمام خصوصیات کا بنیادی مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ عام لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال ہوں اس کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ تیرے عشق حقیقی کا فیض عام نہیں ہو سکا ۔

جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی

معانی: پردگیِ نیام: نیام میں پوشیدہ ۔
مطلب: اس ضمن میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ حیات انسانی کا جوہرعشق ہے جب کہ عشق کا جوہر جذبہ خودی ہے چونکہ معاشرے میں خودی بروئے کار نہیں آ سکی یہی وجہ ہے کہ زندگی کے جوہر آشکار ہوئے نا ہی عشق کے ۔ اس طرح اب تک سارا عمل ہی ادھورا رہ گیا ہے ۔

———————–

Transliteration

Farishton Ka Geet

Aqal Hai Be Zamam Abhi, Ishq Hai Be Maqam Abhi
Naqsh Gar-e-Azal! Tera Naqsh Hai Natamam Abhi

Khalq-e-Khuda Ki Ghaat Mein Rindon-o-Faqeeh-o-Meer-o-Peer
Tere Jahan Mein Hai Wohi Gardish-e-Subah-o-Sham Abhi

Tere Ameer Maal Mast, Tere Faqeer Haal Mast
Banda Hai Koocha Gard Abhi, Khawaja Buland Baam Abhi

Danish-e-Deen-o-Ilm-o-Fan Bandagi-e-Hawas Tamam
Ishq-e-Garah Kushaye Ka Faiz Nahin Hai Aam Abhi

Johar-e-Zindagi Hai Ishq, Johar-e-Ishq Hai Khudi
Aah Ke Hai Ye Taegh-e-Taiz Pardagi-e-Nayam Abhi !

————————–

SONG OF THE ANGLES

As yet the Reason is unbridled, and Love is on the road:
O Architect of Eternity! Your design is incomplete.

Drunkards, jurists, princes and priests all sit in ambush upon Your common folk:
The days in Your world haven’t changed as yet.

Your rich are too unmindful, Your poor too content—
The slave as yet frets in the street, the master’s walls are still too high.

Learning, religion, science and art are all means to fulfill lust:
The grace of Love—the redeemer—is not as yet bestowed upon all.

The essence of Life is Love, the essence of Love is the self;
Alas! This cutting sword as yet rests in the sheath!

————————–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button