ابتداعلامہ اقبال شاعری

آواز غيب

(Armaghan-e-Hijaz-08)

Awaz-e-Ghaib

(آواز غیب)

A Voice From Beyond

آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے

کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک

آسمانوں سے بھی کہیں آگے موجود اللہ تعالٰی کے تخت کے جانب سے آج کے مسلمانوں کو غیب کی ایک صدا صبح کے وقت پوچھتی ہے کہ اے مرد مسلمان تیرے اندر کائنات سے استفادہ کرنے کا جو جوہر یا قوت کبھی موجود تھی وہ آج کیوں نہیں ہے۔ وہ علم اور شعور جس سے کبھی تو کائنات میں تصرف کرتا تھا اب تجھ میں کیوں موجود نہیں۔

———————————–

کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق

ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک

کبهی تحقيق کے میدانوں میں تو سرگرم عمل تھا اور تو زندگی کے مختلف شعبوں میں نئی نئی ایجادات اور تحقیقات کے کرشمے لوگوں کو دکھاتا تھا لیکن آج کیا ہوا۔ تحقیق کے نشتر کی دھار آج تیز کیوں نہیں۔ آج تو اس میدان میں سرگرم عمل نہیں ہے۔ دوسری اقوام کائنات کی مختلف اشیاء کی تسخیر اور تحقیق میں پیش پیش ہیں۔ چاند، سورج اور ستاروں تک کی طاقتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن تجھ کو کیا ہو گیا ہے۔ تجھ میں ان کو تسخیر کرنے اور ان قوتوں کو کام میں لانے کی استعداد کیوں موجود نہیں۔

———————————–

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار

کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک

اے مسلمان اللہ نے تو تجھے کائنات کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی خلافت عطا کی تھی اور تجھے دنیاوی و روحانی دونوں طرح سے اپنا نائب بنا کر بھیجا تھا اور تجھے اپنی نیابت کا اہل سمجھا تھا لیکن آج تجھے کیا ہوا ہے بجائے اس کے تو اس کائنات پر حکمران ہوتا تو ان کا غلام بن چکا ہے۔ کیا کسی نے کبھی دیکھا ہے کہ آگ کو گھاس اور تنکے بجھا دیں لیکن تیری صورت میں یہ انہونی ہو چکی ہے اور تو ہر شعبہ زندگی میں غلاموں کی سی بے بسی کی زندگی گزار رہا ہے۔

———————————–

مہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں

کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک

اللہ تعالٰی نے تو تجھ میں اپنا خلیفہ بنانے کی صورت میں ایسی قوتیں رکھی ہوئیں ہیں کہ جن سے تو آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کو اپنے بس میں کر سکتا ہے لیکن آج یہ کیا ہو گیا ہے کہ تیری اس نگاہ سے یہ چیزیں کیوں نہیں کانپ رہی اور کیوں وہ خدشہ محسوس نہیں کر رہیں کہ تو ان کو اپنا غلام بنا سکتا ہے اور ان کی قوتوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔

———————————–

اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں

نے گرمی افکار، نہ اندیشہ بے باک

اگرچہ تو زندہ ہے اور تیری رگوں میں خون دوڑ رہا ہے لیکن کیا بات ہے کہ نہ تیرے خیالات میں کوئی حرارت ہے اور نہ ہی تیری سوچ میں کوئی بے خوفی ہے۔

———————————–

روشن تو وہ ہوتی ہے، جہاں بیں نہیں ہوتی

جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگہ پاک

جس آنکھ کے پردوں کے پیچھے وہ نظر نہ ہو جو عشق حق میں دھل کر پاک ہو چکی ہو اور کائنات میں ان چیزوں کو دیکھنے سے رکی ہو جن کو دیکھنے سے حق تعالٰی نے منع کیا ہے وہ آنکھ تو ضرور کہلاتی ہے اور اس میں دیکھنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے لیکن وہ دنیا کے معاملات اور اونچ نیچ کی حقیقت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔

———————————–

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری

اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری

اے مسلمان کبھی تیرا ضمیر آئینے کی طرح شفاف ہوتا تھا اور تو اس میں اچھائی اور برائی کے فرق کو دیکھ کر ہمیشہ برائی سے بچا ہوا اور اچھائی پر مائل رہتا تھا لیکن اب تجھ میں وہ قوت نہیں رہی اور اسی وجہ سے تو نیکی اور اچھائی کو چھوڑ کر بدی اور برائی کی طرف مائل رہتا ہے اگر تیرا ضمیر زندہ ہوتا تو پھر تو بادشاہ، نام نہاد ملا اور جعلی پیروں کے فریب میں مبتلا نہ ہوتا۔ اگر تجھے معلوم ہوتا کہ اصلی بادشاہی، اصلی ملائی اور اصلی پیری کیا ہے تو ان جعل سازوں کے فریب میں گرفتار ہونے کی بجائے ان کا احتساب کرتا۔ خلق خدا کو لوٹنے والے ان جعل سازوں، پیشہ وروں اور جابروں سے خود بھی بچتا اور دوسروں کو بھی بچاتا۔

———————————–

Transliteration

Awaz-e-Ghaib

A VOICE FROM BEYOND

Ati Hai Dam-E-Subah Sadda Arsh-E-Bareen Se
Khoya Gya Kis Tarah Tera Johar-E-Idraak !

From the Emperium enquires a voice at dawn: how did
You lose your essential quality  of enquiry and understanding?

Kis Tarah Huwa Kund Tera Nashtar-E-Tehqeeq
Hote Nahin Kyun Tujh Se Sitaron Ke Jagar Chaak

How was blunted your scalpel of research?
Why do you not rend open the hearts of stars?

Tu Zahir-O-Batin Ki Khilafat  Ka Sazawaar
Kya Shaola Bhi Hota Hai Ghulam-E-Khs-O-Khashaak

You deserve to dominate and rule over all that is visible as well as esoteric.
Can a flame be the slave of  dry sticks and grass?

Mehar-O-Mah-O-Anjum Nahin Mehkoom Tere Kyun
Kyun Teri Nigahon Se Larazte Nahin Aflaak

Why are the sun, moon and stars not under your suzerainty?
Why don’t heavens shudder with a mere glance from you?

Ab Tak Hai Rawan Gharcha Lahoo Teri Raagon Mein
Ne Garmi-E-Afkaar, Na Andaish-e-Bebaak

True! Even to‐day blood courses through your veins, but
Your thoughts do not inspire nor is your thinking fearless.

Roshan To Woh Hoti Hai, Jahan Been Nahin Hoti
Jis Ankh Ke Pardon Mein Nahin Hai Nigah-E-Pak

An eye which in its vision does not imbibe pure virtue
Is capable of seeing, no doubt, but is not all‐seeing.

Baqi Na Rahi Teri Woh Aaeena Zameeri
Ae Kushta-e-Sultani-O-Mullai-O-Peeri !

Not a bit remains in you of your clear reflection of conscience!
Alas! O you victim of imperialism, of mullah‐ism and mysticism!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button