اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

صبح

بسم اللہ الرحمن الرحيم
صبح

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا

معانی: سحر: صبح ۔ فردا: آنے والا کل ۔ امروز: آج ۔ سحر: صبح ۔
مطلب: یہ صبح جو ہر روز سورج کے طلوع ہونے سے پیدا ہوتی ہے اور جس سے آج کی صبح آنے والے کل کی صبح بن جاتی ہے معلوم نہیں کہاں سے پیدا ہوتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مجھے اس کی جغرافیائی قسم کی تفتیش کی ضرورت نہیں ۔

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہَ مومن کی اذاں سے پیدا

معانی: سحر: صبح ۔ لرزتا ہے: کانپتا ہے ۔ شبستانِ وجود: دنیا کی خواب گاہ ۔ اذان: حق کی آواز ۔
مطلب: لیکن وہ صبح جو انسانی جسم کے سیاہ خانے کے اندر لرزہ پیدا کر دیتی ہے اور پوری کائنات کو بیدار کر دیتی ہے وہ صبح بندہ مومن کی اذاں سے پیدا ہوتی ہے ۔ مراد یہ ہے جب مردِ خدا جو عشق سے بھرپور ہو جب حق کی آواز بلند کرتا ہے تو اس کی پرجوش آواز سے جو جہالت تاریکی کے بعد سحر پیدا ہوتی ہے اس سے پوری کائنات کا وجود کانپ اٹھتا ہے ۔

Transliterations

                                                    

Subah

Ye Sehar Jo Kabhi Farda Hai Kabhi Hai Amroz
Nahin Maloom Ke Hoti Hai Kahan Se Paida

Woh Sehar Jis Se Larazta Hai Shabistan-e-Wujood
Hoti Hai Banda-e-Momin Ki Azan Se Paida

Bhopal (Sheesh Mehal) Mein Likhe Gye

————————-

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button