اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

ذکر و فکر

یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام
وہ جس کی شان میں آیا ہے عَلَّم الاسما

معانی: سالک: چلنے والا ۔ علم الاسما: آدم کو جن چیزوں کے نام سکھائے گئے ۔
مطلب: سالک یعنی حقیقت کی تلاش کے راستے دو ہیں ایک ذکر کا اور دوسرا فکر کا ہے ۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے علم الاسما کی صفت سے نوازا ہے ۔ بلکہ سارے انسانوں کو نوازا ہے بشرطیکہ وہ اس انعام خداوندی کو سمجھ کر تلاش حقیقت میں نکلیں جو سالک ذکر کا یا عشق کا راستہ اور مشاہدے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں تو وہ اپنے مقصود کو یقین کی حد تک پا لیتے ہیں ۔ اس کے برعکس جو عقل کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں حقیقت میں ان میں سے بعض پر منکشف ہو جاتی ہے لیکن مشاہدہ نہ ہونے کے اعتبار سے یقین کامل کا پاؤں بعض دفعہ لغزش کھا جاتا ہے ۔

مقامِ ذکر کمالاتِ رومی و عطّار
مقامِ فکر مقالاتِ بو علی سینا

مطلب: ذکر اور فکر میں امتیاز اور فرق کی مثال دیتے ہوئے علامہ رومی اور عطار کو اہل ذکر کے نمائندوں کے طور پر پیش کرتے ہیں جنھوں نے مشاہدہ حق کا مقام حاصل کیا ہے اور بو علی سینا کو جس کی عقل پر مبنی تحریریں مشہور ہیں اہل فکر کے نمائندوں کے لہاظ سے متعارف کرایا ہے ۔ حقیقت اس گروہ کے لوگوں کے ہاتھ بھی لگی ہے لیکن وہ دیدار اور مشاہدہ سے محروم ہیں ۔

مقامِ فکر ہے پیمائشِ زمان و مکاں
مقامِ ذکر ہے سُبحانَ ربیِ الاعلیٰ

معانی: فکر: سوچ ۔ پیمائش: ناپ تول، اصل معلوم کرنا ۔ زمان و مکاں : مقام اور وقت ، زمانے کی حدیں ۔ سبحان ربی الاعلیٰ: میرا بلند مرتبہ پروردگار پاک ہے ۔ مقامِ ذکر: ذکر کی شان ۔
مطلب: اہل فکر زمان و مکان کے حدود میں پابند رہتے ہیں وہ اس مادی جان اور اس عالم شش جہات کے متعلق ہی غور و خوض کرتے رہتے ہیں ۔ اس جہان کے پیچھے یا آگے کیا ہے وہاں کے حقائق تک ان کی رسائی نہیں ہوتی ۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کا راز صرف اہل ذکر کو معلوم ہوتا ہے اور وہ اللہ کی پاکی بیان کر کے اور اس کے ذکر کی مختلف صورتیں اختیار کر کے اس جہان مادہ کے پس پردہ جو حقیقت ہے اسے پا لیتے ہیں ۔ صفات کے بت کدہ کو توڑتے ہوئے دیدار ذات کی منزل تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور یہ سب سے اعلیٰ برتر اور حقیقت پر مبنی مقام ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button