بانگ درا (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

قرب سلطان

تميز حاکم و محکوم مٹ نہيں سکتی
مجال کيا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش
جہاں ميں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال
رضاے خواجہ طلب کن قباے رنگيں پوش
مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو
خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش
پرانے طرز عمل ميں ہزار مشکل ہے
نئے اصول سے خالی ہے فکر کی آغوش
مزا تو يہ ہے کہ يوں زير آسماں رہيے
”ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش”
يہی اصول ہے سرمايۂ سکون حيات
”گداے گوشہ نشينی تو حافظا مخروش”
مگر خروش پہ مائل ہے تو ، تو بسم اللہ
”بگير بادئہ صافی، ببانگ چنگ بنوش”
شريک بزم امير و وزير و سلطاں ہو
لڑا کے توڑ دے سنگ ہوس سے شيشۂ ہوش
پيام مرشد شيراز بھی مگر سن لے
کہ ہے يہ سر نہاں خانۂ ضمير سروش

محل نور تجلی ست راے انور شاہ
چو قرب او طلبی درصفاے نيت کوش

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button