علامہ اقبال شاعریعورت

عورت

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

معانی: عورت کے لفظ کے معنی ہی چھپی ہوئی چیز کے ہیں ۔ اس لیے عورت ہو تو اس کا چھپا ہوا ہونا یا پردے میں ہونا لازمی ہے اگر ایسا نہیں تو دیکھنے میں عورت ہے حقیقت میں نہیں ۔
مطلب: شاعر نے اس شعر میں ایک حقیقت بیان کی ہے کہ دنیا کی تصویر اگر رنگین ہے تو صرف عورت کی موجودگی کی وجہ سے ہے ۔ عورت ایک ایسے ساز کی مانند ہے کہ جس میں سے ایسے نغمے نکلتے ہیں جس سے آدمی کی زندگی میں اندرونی سوز یا گرمی ہنگامہ پیدا ہوتی ہے ۔ اگر دنیا میں صرف مرد ہی ہوتے اور عورت نہ ہوتی تو یہ تصویر کائنات سراسر بے رنگ ہوتی ۔

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اس دُرج کا دُرِ مکنوں

معانی: شرف: برتری ۔ ثریا: ستاروں کا ایک جھرمٹ ۔ مشت خاک: مٹی کی مٹھی، یعنی آدمی ۔ درج: ڈبیا ۔ در مکنوں : چھپا ہوا موتی ۔
مطلب: عورت بظاہر مٹی کی ایک مٹھی ہے یعنی خاکی جسم رکھتی ہے لیکن وہ آسمان کی بلندی پر چمکتی ہوئی ثریا سے بھی بڑھ کر ہے ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی برتری یا عزت نظر آتی ہے وہ اسی ڈبیا کا پوشیدہ موتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ عورت ہی سب کی سربلندیوں اور عظمتوں کا سرچشمہ ہے ۔

مکالماتِ افلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں

معانی: مکالاتِ افلاطوں : افلاطون ایک یونانی فلسفی تھا جس کی ایک کتاب کا نام مکالمات یعنی آپس میں گفتگو کرنا ۔ شرار: چنگاری ۔
مطلب: اس سے پہلے شعر میں علامہ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی باعزت اور برتری والے لوگ ہوئے ہیں وہ عورت ہی کے بطن سے پیدا ئے ہیں اور انھوں نے اسی کی گود میں تربیت پائی ہے ۔ اس اصول کو شاعر نے اس شعر میں ایک مثال دے کر سمجھایا ہے ۔ افلاطون ایک یونانی فلسفی تھا جس نے مکالمات کے نام سے ایک اہم فلسفیانہ کتاب لکھی ہے ۔ اگر عورت نہ ہوتی تو اس کے بطن سے افلاطون کی چنگاری پیدا نہ ہوتی ۔ اور اگر عورت بحیثیت ماں اس کی صحیح تربیت نہ کرتی تو وہ مکالمات جیسی کتاب لکھنے کے قابل نہ ہو سکتا ۔ یہ سچ ہے کہ ایسی کتاب وہ خود نہیں لکھ سکی لیکن ایسی کتاب لکھنے والے کو اس نے جنم بھی دیا ہے اور پرورش کر کے ایسی کتاب لکھنے کا اہل بھی بنایا ہے ۔

——————————

Wujood-e-Zan Se Hai Tasveer-e-Kainat Mein Rang
Issi Ke Saaz Se Hai Zindagi Ka Souz-e-Darun

The picture that this world presents from woman gets its tints and scents: 
She is the lyre that can impart pathos and warmth to human heart.

Sharaf Mein Barh Ke Sureya Se Musht-e-Khak Iss Ki
Ke Har Sharaf Hai Issi Durj Ka Dur-e-Makoon

Her handful clay is superior far to Pleiades that so higher are 
For every man with knowledge vast, Like gem out of her cask is cast.

Makalat-e-Falatoon Na Likh Saki, Lekin
Issi Ke Shole Se Toota Sharaar-e-Aflatoon

Like Plato can not hold discourse, Nor can with thunderous voice declaim: 
But Plato was a spark that broke from her fire that blazed like a flame.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button