علامہ اقبال شاعریمحراب گل افغان کے افکار

کيا چرخ کج رو ، کيا مہر ، کيا ماہ

کیا چرخِ کجرو، کیا مہر، کیا ماہ
سب راہرو ہیں واماندہَ راہ

معانی: چرخ کج رو: ٹیڑھی چال چلنے والا آسمان، عام عقیدہ ہے کہ زمانے کے انقلابات آسمان کی چال پر منحصر ہیں ۔ مہر: سورج ۔ ماہ: چاند ۔ رہرو: مسافر، راہ چلنے والا ۔ واماندہ راہ: راستہ میں پیچھے رہ جانے والا ، تھکا ہوا ۔
مطلب: چاہے ٹیڑھی چال چلنے والا آسمان ہو اور چاہے سورج اور چاند ہوں سب راہ چلنے والے مسافر ہیں ۔ یہ سب کے سب اگرچہ سفر مسلسل کی وجہ سے تھکے ہوئے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی چلتے رہتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ زمانے میں کوئی شے بھی مستقل نہیں ہے ۔ کسی کی حالت ایک جیسی نہیں رہتی ۔ اشیا ایک حالت سے دوسری حالت میں اور مسافر ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ دنیا میں کوئی شے بھی ہمیشہ رہنے والی یا ساکن و ثابت نہیں ہے ۔

کڑکا سکندر بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے اے مرگِ ناگاہ

معانی: سکندر: قدیم یونان کا ایک فاتح ۔ بجلی کی مانند کڑکا: ملکوں کو تیزی میں فتح بھی کیا اور جلد مر گیا ۔ مرگ ناگاہ: اچانک موت ۔
مطلب: چونکہ زمانے کی کسی چیز کو بھی ثبات نہیں اس لیے علامہ نے دو ایسے فاتحین کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق افغان علاقے کی فتح سے تھا اور جن میں سے ایک یعنی نادر خود افغان تھا اور بتایا ہے کہ باوجود اتنے بڑے فاتح ہونے کے دونوں فاتحین (سکندر اور نادر) کا اب نام و نشان باقی نہیں ۔ سکندر یونانی اپنے ملک سے بجلی کی طرح کڑکتا ہوا نکلا اس نے افغان علاقہ سمیت پنجاب تک کا علاقہ بھی فتح کر لیا، لیکن واپسی پر اچانک مر گیا ۔

نادر نے لوٹی دلّی کی دولت
اک ضربِ شمشیر! افسانہ کوتاہ

معانی: نادر: ایران کا ایک بادشاہ جس نے مغلوں کے آخری دور میں دلی کو فتح کر کے قتل عام کیا ۔ ضرب شمشیر: تلوار کی کاٹ ۔ افسانہ کوتاہ: قصہ مختصر ۔
مطلب: سکندر کی طرح نادر شاہ بھی ایک عظیم فاتح تھا ۔ اس نے دور زوال کے مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں دلی کو فتح کیا ۔ اسے برباد کیا اس کی دولت لوٹی اس کے باشندوں کا قتل عام کیا لیکن چند سال بعد اپنے امیروں کی سازش کی بنا پر انہیں کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ ایک تلوار کے وار نے اس کی سلطنت اور زندگی کا قصہ مختصر کر دیا ۔

افغان باقی! کہسار باقی
الحکم لِلّلہ! الملک ِللَّلہ

معانی: کہسار: پہاڑوں کا سلسلہ ۔ الحکم للہ: حکم اللہ کا ہے ۔ الملک للہ: ملک اللہ کا ہے ۔
مطلب: یہ بات سچ ہے کہ سکندر اور نادر نے یا ان جیسے اور فاتحین نے بڑی بڑی فتوحات کیں بڑے بڑے ملکوں اور بڑی بڑی قوموں کو اپنے زیر نگیں کیا لیکن آج ان کا نام ونشان باقی نہیں ۔ البتہ دنیا ابھی تک اسی طرح باقی ہے ۔ دنیا کی قو میں باقی ہیں جیسا کہ اے افغانوں تمہارے پہاڑوں کا سلسلہ باقی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اصل بادشاہی اللہ کی ہے جو قائم و دائم ہے ۔ ملک اور ان پر حقیقی حکمرانی بھی اس کی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے ۔ باقی سب کی سلطنت فانی اور سب کا حکم عارضی ہے ۔

حاجت سے مجبور مردانِ آزاد
کرتی ہے حاجت شیروں کو رُوباہ

معانی: حاجت: احتیاج، ضرورت ۔ روباہ: لومڑی، بزدل اور مکار بن جانا ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ احتیاج اور ضرورت ایک ایسی نامراد شے ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے بعض اوقات آزاد لوگ بھی دوسروں کے غلام بن جاتے ہیں ۔ یہ احتیاج ایسی بری چیز ہے کہ شیروں کو لومڑی بنا دیتی ہے اور لوگ اپنے آقاؤں کی خوشامد کر کے اپنی خودی کو چھوڑ کر اور اپنی بہادری اور آزادی کو ایک طرف رکھ کر اپنی احتیاجات پوری کرنے لگ جاتے ہیں ۔

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر
تو بھی شہنشاہ، میں بھی شہنشاہ

معانی: فقر اگر احتیاج کی بنا پر اپنے مقام سے گر نہ جائے اور اپنے مقام سے آگاہ ہو اور اپنی خود معرفتی و خود شناسی سے واقف ہو تو پھر وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا دوسرے اس کے محتاج ہو جاتے ہیں ۔ فقیر اللہ کی تسلیم و رضا پر بھروسا کئے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتا ہے ۔ ایسا درویش دیکھنے میں بوریا ئے فقر پر بیٹھا ہو گا ۔ پھٹا ہوا لباس اس کے تن پر ہو گا بال اس کے بکھرے ہوئے ہوں گے لیکن وہ اپنی احتیاج کسی کے پاس نہیں لے جائے گا صرف اللہ پر بھروسہ رکھے گا اور یہ چیز اسے بادشاہوں کا بادشاہ بنا دیتی ہے ۔

قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

معانی: مرد درویش: فقیر، ولی، صوفی ۔ درگاہ: بارگاہ، دربار ۔
مطلب: کلام اقبال کا یہ خاص موضوع ہے کہ جو فقیر مرد ہوتا ہے وہ اللہ کے سوا ہر کسی سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ اور تسلیم و رضائے الہٰی پر پہنچ کر خود میں ایسی قوتیں پیدا کر لیتا ہے کہ اس کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں ۔ افسوس آج اس قسم کے بے نیاز ، بے احتیاج اور خدا رسیدہ فقیر نہیں رہے بلکہ ایسے درویش رہ گئے ہیں جو نفس پرست، دنیاد ار اور جاہ حشمت سے مرعوب ہونے والے ہیں اور اپنی دنیاوی اور نفسانی اغراض کے لیے سرکاری درباری ماحول میں جانا پسند کرتے ہیں ۔ ایسے درویش مسلک فقر کے لیے باعث ذلت ہیں اس کے برعکس ایسا درویش جو بارگاہ میر و سلطاں سے بے نیاز ہو بلکہ میر و سلطاں اس کے آستانہ پر حاضری دینے اور اس کی قدم بوسی کو فخر سمجھتے ہوں وہ افراد و اقوام کی قسمت اللہ کی عطا کی ہوئی قوتوں سے ایک نظر میں بدل سکتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button