اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

فلسفہ

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں
پوشیدہ نہیں مردِ قلندر کی نظر سے

معانی: خفی: پوشیدہ ۔ جلی: ظاہر ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ مرد قلندر کی نگاہ سے (یہاں مراد خود ان کی ذات کیونکہ وہ خود کو قلندر کہتے ہیں ) جوانوں کے خیالات چاہے وہ ان کے باطن میں ہوں یا ان کے ظاہر میں ہوں چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی
مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے

معانی: اے فلسفہ کے مارے ہوئے نوجوان مجھے تیرے ظاہری اور باطنی حالات کی اس لیے خبر ہے کہ کبھی میں بھی اس راستہ سے ہو کر گزرا تھا ۔ کبھی میں بھی تیری طرح فلسفہ کا مارا ہوا تھا جب اس کی حقیقت مجھ پر منکشف ہو گئی تو میں اس سے باز آ گیا کیونکہ فلسفہ کسی چیز کا حل نہیں ہے ۔ یہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ۔

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

معانی: صدف: سیپ ۔ گہر: موتی ۔
مطلب: جو عقل و دانش رکھنے والے لوگ ہیں وہ الفاظ کے گورکھ دھندے میں خود کونہیں الجھاتے اور فلسفہ سوائے گورکھ دھندے میں الجھنے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ علامہ یہاں سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ دریا میں غوطہ لگانے والے کا مقصد تو موتی حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ سیپ اور فلسفہ کا مارا ہوا سیپ کے پیچھے پڑا رہتا ہے موتی اس کے ہاتھ نہیں آتا ۔

پیدا ہے فقط حلقہَ اربابِ جنوں میں
وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

معانی: اربابِ جنوں : عشق والے ۔ شرر: چنگاری ۔
مطلب: عقل بھی دو قسم کی ہے ۔ ایک عقل فلسفہ کے مارے ہوئے لوگوں کی ہے وہ شرر اور شعلے میں فرق نہیں کر سکتی ۔ ایک عقل عاشقان الہٰی کی ہے اہل عشق و جنوں کی ہے ۔ یہ عقل اس فرق کو سمجھتی ہے ۔ اس لیے آدمی کو اس فلسفہ عقل کے پیچھے لگنے کی بجائے اہل عشق کی عقل کے پیچھے لگنا چاہیے ۔

جس معنیِ پیچیدہ کی تصدیق کرے دل
قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے

معانی: پیچیدہ: مشکل ۔ تابندہ گہر: چمکدار موتی ۔
مطلب: جس الجھے ہوئے معنی کو دل سچ جانے وہ سچ ہے ۔ یہ معنی جو دل یا عشق کی سمجھ میں آ جاتے ہیں یہ چمکتے ہوئے موتی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ۔

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

معانی: نزع کی حالت میں : موت کی کشمکش میں یعنی قریب مرگ ۔ خونِ جگر سے: دل کی خالص مشقت سے ۔
مطلب: جو فلسفہ کہ عقل محض کے تابع ہے وہ بے کار ہے لیکن وہ فکر جو خون جگر سے لکھا گیا ہو اور عشق کے تابع ہو وہ فکر صحیح فکر ہے ۔ اور جو فلسفہ دل کے اور جگر کے خون سے نہ لکھا گیا ہو یعنی جس کی تصدیق انسان کا دل اور اس کی روح نہ کرتی ہو وہ فلسفہ یا تو مردہ ہے یا مرنے کے قریب ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button