اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

مکہ اور جنيوا

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم

معانی: مکہ: وہ شہر جہاں مسلمانوں کا مرکز بیت اللہ شریف ہے ۔ جنیوا: سوءٹزرلینڈ کا شہر جہاں مجلس اقوام قائم ہوئی ۔ وحدتِ آدم: انسانی اتحاد ۔
مطلب: اقوام متحدہ بنانے کا مقصد محض قوموں میں میل جول پیدا کرنا تھا اس سے علامہ کے نزدیک کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا تھا ۔ اصل کام قوموں میں اتحاد اور یگانگت پیدا ہونا چاہیے تھا جو کہ اسلام کا مقصود ہے مگر اس جمیعت کا کام تو بڑی قوموں کا آپس میں مشورہ کر کے چھوٹی قوموں کی لوٹ کھسوٹ کرنا تھا ۔

تفریق ملل، حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم

معانی: تفریق ملل: قوموں کی تقسیم ۔ حکمتِ افرنگ: فرنگی، انگریز کی سیاست ، مکاری ۔ مقصود: مقصد ۔ ملتِ آدم: انسانی قوم، انسانیت ۔
مطلب: اس اقوام متحدہ کا اصل مقصد یورپ کی اقوام کا قانونی منظوری لے کر چھوٹی اور ماتحت قوموں میں نفاق ڈالنا تھا نہ کہ ان میں اتحاد پیدا کرنا ۔ اس کے مقابلے میں اسلام کی حکمت یہ ہے کہ سب اقوام چونکہ ایک آدم کی اولاد کے افراد پر مشتمل ہیں اس لیے ان میں اتحاد ، اتفاق اور یگانگت پیدا کرنی چاہیے ۔

مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمیعتِ اقوام کہ جمیعّت آدم

معانی: جمیعتِ اقوام: قوموں کا اتحاد ۔
مطلب: مکہ نے یعنی اسلام نے دنیا والوں خصوصاً اہل یورپ کو جو جنیوا میں اقوام متحدہ بنائے بیٹھے ہیں یہ پیغام دیا ہے کہ اقوام متحدہ کا اصل کام قوموں اور ان کے افراد میں اتفاق پیدا کرنا ہونا چاہیے اور ایک آدم کی اولاد کی حیثیت سے ان میں اتفاق اور یگانگت پیدا کرنی چاہیے نہ کہ محض آپس کا رسمی میل جول ۔ ظاہر میں ملاپ اندر سے نفاق، ظاہر میں انصاف اندر سے لوٹ کھسوٹ ۔ مراد یہ ہے کہ دنیا کی سب اقوام میں اگر کسی کے پاس اتحاد کے رشتے کا اور جنگ اور نفاق سے گریز کا پیغام ہے تو وہ صرف اسلام کے پاس ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button