تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

تربيت

زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوزِ دماغ

معانی: تربیت: پرورش، اصلاح ۔ شے: چیز ۔ سوزِ جگر: جگر کا جلانا ۔ سوزِ دماغ: دماغ کا جلانا ۔
مطلب: اقبال اس نظم میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک آدمی کی تربیت (اصلاح) نہ ہو علم بے کار ہے ۔ اصل زندگی تربیت مانگتی ہے ۔ صرف علم فائدہ نہیں ہے ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ زندگی اور علم دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ زندگی خون جگر پینے یا جگر کی تپش کا نام ہے ۔ عشق سے آشنا ہونے کا نام ہے جب کہ علم صرف دماغ کو جلاتا ہے ۔ اس میں صرف دماغ خرچ ہوتا ہے ۔ اس سے زندگی کی اصل حقیقت ہاتھ نہیں آتی ۔ وہ علم جو آدمی کی انسانی اور روحانی پرورش نہیں کرتا بے کار ہے ۔

علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

معانی: قدرت: طاقت ۔ لذت: مزا ۔ سراغ: تلاش ۔
مطلب: علم میں دولت حاصل کرنے، اشیا پر قابو پانے کی طاقت پیدا کرنے اور کئی قسم کی دماغی اور جسمانی ذائقوں اور لذتوں کے وصف موجود ہیں لیکن اس میں بڑی کمی یہ ہے کہ اس کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنا پتہ نہیں ملتا کہ میں کون ہوں اور کیوں ہوں یعنی وہ خود سے بے گانہ رہتا ہے ۔

اہلِ دانش عام ہیں ، کم یاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ

معانی: اہل دانش: دانا، فکر والے، علم والے ۔ کم یاب: کم ملتے ہیں ۔ اہل نظر: نظر رکھنے والے، مشاہدہ ذات کرنے والے ۔ ایاغ: پیالہ ۔
مطلب: علم والے تو عام ملتے ہیں ۔ اے مخاطب اگر تو علم کے بجائے اہل نظر کی صحبت اختیار کرتا تو تیری زندگی کا پیالہ زندگی کی حقیقت کی شراب سے خالی نہ رہتا ۔ تجھے بھی اپنا اور اپنی زندگی کا بھی پتہ مل جاتا اور تو آدمی نما حیوان نہ رہتا ۔

شیخِ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ

معانی: شیخ مکتب: استاد ۔ کشاد دل: دل کا کھلنا ۔ کبریت: دیا سلائی ۔ چراغ: دیا ۔
مطلب: آج کل کے مدرسوں میں استاد جو کچھ پڑھاتے ہیں ان کے طریقہ تعلیم سے طالب علم کا دل کیسے کشادگی حاصل کر سکتا ہے یعنی نہیں حل کر سکتا اس سے دل زندہ نہیں ہوتا ہے، مر جاتا ہے اور جب دل مر جاتا ہے تو آدمی آدمی نہیں رہتا حیوان بن جاتا ہے ۔ کیا دیا سلائی سے بجلی کا چراغ روشن کیا جا سکتا ہے ۔ ہرگز نہیں ۔ اسی طرح موجودہ طریقہ تعلیم سے جو انگریزی حکومت نے ایک خاص مقصد کے لیے راءج کیا تھا دماغ تو روشن ہو جاتا ہے لیکن دل تاریکی میں ڈوب جاتا ہے ۔ علم کا اصل مقصد طالب علم کی روحانی اور انسانی تربیت ہے جو موجودہ دور کے مدارس اورمدرس پورا نہیں کر رہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button