بال جبریل (حصہ دوم)علامہ اقبال شاعری

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہيں

 

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

معانی: بحر: سمندر ۔ آبجو: چھوٹی نہر ۔
مطلب: اس نظم کے مطلع میں اقبال خودی کی تعریف پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی تو ایسا بے پایاں سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تو نے تو خودی کو ایک معمولی ندی سمجھ لیا ہے ۔ یہی تیری کج فہمی اور کم ہمتی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خداوند عزوجل نے انسان کو بے پناہ قوتیں عطا کی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ان قوتوں کا ادراک نہیں ہے ۔

طلسمِ گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگِ خارہ نہیں

معانی: طلسمِ گبندِ گردوں : آسمان کا جادو ۔ زجاج: شیشہ ۔ سنگِ خارہ: مضبوط پتھر ۔
مطلب: انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ آسمان کے طلسم کو توڑ کر رکھ دے ۔ علامہ یہاں علامتی انداز میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ طلسم تو شیشے کی عمارت کے مانند ہے سنگ خارا یعنی سخت پتھر کی نہیں چنانچہ سنگ خارا کے مقابلے میں شیشے کی عمارت کو توڑنا سہل ہے ۔

خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلہَ مردِ ہیچ کارہ نہیں

معانی: مردِ ہیچ کارہ: ناکارہ شخص ۔
مطلب: ایسے جانباز لوگ جو کچھ کر گزرنے کی ہمت و استطاعت رکھتے ہیں ۔ ان کے روبرو اگرخودی ایک سمندر کے مانند ہے تو اس میں غوطہ لگا کر اپنی ہمت و جرات کے طفیل پھر سے صفحہ آب پر ابھر سکتے ہیں لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ یہ کام نکمے اور ناکارہ لوگوں کا نہیں ہو سکتا بلکہ جواں ہمت لوگوں سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابعِ ستارہ نہیں

مطلب: انجم شناس: ستاروں کا علم جاننے والا ۔
مطلب: انسان سے مخاطب ہوتے ہوئے حکیم الامّت کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو ستارہ شناسی کے دعویدار ہیں تیرے مقام اور مرتبے کو کس طرح سے جان سکتے ہیں کہ توُتو ایک زندہ وجود ہے اور ستاروں کے تابع تو نہیں ہے اور ستاروں کا محدود علم رکھنے والے تیرے مقام کو کس طرح سے جان سکتا ہے ۔

یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے
تری نگہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں

مطلب: روایت تو یہی ہے کہ جبرئیل اور حور و غلماں خدائے لا یزل کی پیدا کردہ بہشت میں موجود ہیں لیکن اگر تجھ میں بصیرت اور دوربینی کے عنصر موجود ہوں تو اس حقیقت کو جان لے گا کہ حور و غلماں ، جبرئیل اور بہشت تو خود تیرے سامنے موجود ہیں لیکن اس کو جاننے کے لیے چشم بصیرت درکار ہے ۔ بدقسمتی سے اس خصوصیت سے تو بہرہ ور نہیں ہے ۔

مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں

معانی: پیرہن: لباس ۔
مطلب: میرا جذبہ عشق تو اس قدر حقیقت شناس ہے کہ اپنے عہد اور اس کے معاشرے سے پوری طرح سے آگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ مجھے سر چھپانے کے لیے وہ لباس عطا کیا جو پارہ پار ہ نہیں ہے ۔

غضب ہے عینِ کرم میں بخیل ہے فطرت
کہ لعلِ ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں

معانی: بخیل: کنجوس ۔ لعلِ ناب: اصل ہیرا ۔
مطلب: یہ امر یقینا حیرت کا باعث ہے کہ فطرت اپنی کرم گستری میں ان کمال تک پہنچنے کے باوجود بخل اور کنجوسی سے بعض مرحلوں میں کام لیتی ہے جس کے مثال لعل خالص ہے اس کا رنگ تو انتہائی سرخ شعلوں کے مانند ہے تاہم اس میں سے کوئی چنگاری نہیں جھڑتی ۔ دیکھا جائے تو یہ غیر فطری سا عمل ہے لیکن اقبال نے فطرت کے بخل کے بارے میں بات اسی حوالے سے کی ہے ۔

—————————-

Translation

Khudi Woh Behar Hai Jis Ka Koi Kinara Nahin
Tu Aabjoo Usse Samjha Agar To Chara Nahin

Tilism-e-Gunbad-e-Gardoon Ko Torh Sakte Hain
Zujaj Ki Ye Amarat Hai, Sang-e-Khara Nahin

Khudi Mein Doobte Hain Phir Ubhar Bhi Ate Hain
Magar Ye Hosla-e-Mard-e-Haichkarah Nahin

Tere Maqam Ko Anjum Shanas Kya Jane
Ke Khak-e-Zinda Hai Tu, Taba-e-Sitara Nahin

Yahin Behisht Hi Hai, Hoor-o-Jibreel Bhi Hai
Teri Nigah Mein Abhi Shaukhi-e-Nazara Nahin

Mere Junoon Ne Zamane Ko Khoob Pehchana
Woh Pairhan Mujhe Bakhsha Ke Para Para Nahin

Ghazab Hai, Ayin-e-Karam Mein Bukheel Hai Fitrat
Ke Laal-e-Naab Mein Atish To Hai, Sharara Nahin

————————-

The self of man is ocean vast, and knows no depth or bound:
If you take it for a stream, How can your mind be sound?

The magic of this whirling dome we can set at naught:
Not of stone but of glass its building has been wrought.

In Holy Trance in self we drown, and up we rise again;
But how a worthless man can show so much might and main?

Your rank and state cannot be told by one who reads the stars:
You are living dust, in sooth, not ruled by Moon or Mars.

The maids of Ed’n and Gabriel eke in this world can be found,
But, alas! You lack as yet glances bold and zeal profound.

My craze has judged aright the bent of  times wherein I am born:
Love be thanked for granting me the gown entire and untorn.

Spite of Nature’s bounty great, its guarding practice, mark!
It grants the ruby reddish hue, but denies the heat of spark.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button