تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

غزل

دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

معانی: مرضِ کہن : پرانی بیماری ۔ چارہ: علاج ۔
مطلب: اقبال مسلمان کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیرے پاس زندہ دل نہیں ہے بلکہ تو مردہ دل رکھتا ہے جو سوز سے، عشق سے، یاد الہٰی سے اور خودی سے نا آشنا ہے ۔ اگر تو دنیا میں دوبارہ ابھرنا چاہتا ہے تو اپنے اس مردہ دل کو عشق کی حرارت سے، اللہ کی یاد سے، اور خود معرفتی سے زندہ کر کیونکہ میرے نزدیک مردہ اقوام کے پرانے امراض کا اس سے بڑھ کر کوئی علاج نہیں ہے ۔

ترا بحر پر سکوں ہے! یہ سکوں ہے یا فسوں ہے
نہ نہنگ ہے ، نہ طوفاں ، نہ خرابیِ کنارہ

معانی: بحر پرسکوں : خاموش سمندر ۔ فسوں : جادو ۔ نہنگ: مگر مچھ ۔
مطلب: اقبال یہاں مسلمان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ تیرے دل کی یا زندگی کے سمندر میں مجھے کوئی طوفان نظر نہیں آتا ۔ نہ ہی اس میں مگرمچھ جیسے خطرناک جانور دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اس کے ساحلی کناروں پر کوئی ٹوٹ پھوٹ دکھائی دیتی ہے ۔ تیرے سمندر کی یہ بے طوفانی اور آرام کی جو صورت ہے کیا یہ اس لیے ہے کہ تجھ پر کسی نے جادو کر رکھا ہےمراد یہ ہے کہ زندگی مخالف قوتوں سے تصادم اور خطرات سے کھیلنے کا نام ہے ۔ لیکن اے مسلمان تیری زندگی تو سراسر سکوں کی زندگی ہے اس لیے تو اقوام میں پیچھے ہے اور غلامی پر مطمئن ہے ۔

تو ضمیرِ آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے
نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزہَ ستارہ

معانی: ضمیرِ آسماں : آسمان یا زمانے کا مزاج ۔ آشنا: واقف ۔ غمزہَ ستارہ: ستارے کا اشارہ ۔
مطلب: اے مسلمان معلوم ہوتا ہے کہ تو ابھی آسمان کے دل یا فطرت میں جو کچھ ہے اس سے بالکل ناواقف ہے اور میں اس بات پر حیران ہوں کہ تجھے ستاروں کے ناز نخرے کیوں بے قرار نہیں کرتے ۔ آسمان صرف ان افراد اور اقوام کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے جو اپنے اندر عمل کی قوت رکھتے ہیں میں حیران ہوں کہ تو فطرت کے اس اصول کو کیوں نہیں سمجھ رہا اور غلامی پر کیوں رضا مند ہے ۔

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمہَ سحر نے
مری خاکِ پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ

معانی: نیستاں : بانسوں کا جنگل ۔ نغمہَ سحر: صبح کا گیت ۔ مری خاک پے سپر: پامال شدہ مٹی یعنی میری عاجز ذات ۔ شرارہ: چنگاری ۔
مطلب: راستے میں میرے پاؤں سے اڑنے والی مٹی میں جو ایک چنگاری چھپی ہوئی تھی اس نے میرے صبح کے نغمہ میں شامل ہو کر تیرے سر کنڈوں کے جنگل میں آگ لگا دی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ میری آہ سحر گاہی نے یعنی میری شاعری نے اے مسلمان تیرے اندر تڑپ پیدا کر دی ہے ۔ یعنی آزادی کا جذبہ پیدا کر دیا ہے ۔

نظر آئے گا اسی کو یہ جہانِ دوش و فردا
جسے آ گئی میسر مری شوخیِ نظارہ

معانی: دوش و فردا: گزشتہ اور آنے والا کل ۔ شوخیِ نظارہ: دیکھنے کی شوخی ۔
مطلب: جس شخص کو میری طرح نظاروں کو شوخی سے دیکھنے کا فن آتا ہو اسے ہی اس جہان کی جو گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کے اجزا پر مشتمل ہے حقیقت نظر آئے گی ۔ حقیقت جہان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شوخ نظر پیدا کی جائے اور یہ شوخ نظری قلندری اور درویشی سے ہاتھ آتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button