عورتعلامہ اقبال شاعری

عورت

جوہرِ مرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہرِ عورت کی نمود

معانی: جوہر: بنیادی صفت ۔ عیاں ہونا : ظاہر ہونا ۔ بے منت غیر: بغیر دوسرے کی مدد کے ۔ نمود: ظاہر ہونا ۔
مطلب: مرد اور عورت میں خالق نے جو بنیادی صفتیں رکھی ہیں اور دونوں میں جو فرق ہے اس کو بتاتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ مرد کی بنیادی صفات عورت کی محتاجی اور مدد کے بغیر ہی ظاہر ہو جاتی ہیں لیکن اس کے برعکس عورت کی بنیادی صفات مرد کی مدد سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ مرد کو اپنے جوہر ظاہر کرنے کے لیے عورت کی احتیاج نہیں لیکن عورت کو اپنے جوہر ظاہر کرنے کے لیے مرد کی احتیاج ہے ۔ اور یہ فرق خالق نے دونوں مجسموں کی تخلیق میں رکھا ہوا ہے جس سے مفر نہیں ۔

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتہَ شوق
آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود

معانی: راز: بھید ۔ تپ غم: غم کی حرارت ۔ نکتہ شوق: شوق کی باریک بات ۔ آتشیں : آگ سی حرارت والا ۔ لذت تخلیق: اولاد پیدا کرنے کی لذت ۔ وجود :ہستی ۔
مطلب: عورت کے اندر غم کی جو حرارت ہے اس کا بھید، شوق کا یہ باریک نکتہ ہے کہ اس میں اولاد پیدا کرنے کی خواہش آگ کی سی حرارت کی طرح موجود ہے اور اسی سے اس کی ہستی قائم ہے ۔ خالق نے عورت کو بنایا ہی اس لیے ہے کہ وہ اولاد پیدا کرے اور اس کا یہ شوق اس میں اولاد حاصل کرنے کی قدرتی حرارت کو زندہ رکھتا ہے ۔

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرارِ حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکہَ بود و نبود

معانی: اسرار حیات: زندگی کی بھید ۔ معرکہَ بود و نبود: ہستی اور نیستی کا معرکہ یعنی یہ دنیا، جہاں کوئی زندہ ہوتا ہے اور کوئی مرتا ہے ۔

میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہَ مشکل کی کشود

معانی: مظلومی نسواں : عورتوں کی مظلومی ۔ عقدہَ مشکل: مشکل گرہ ۔ کشود: کھلنا ۔
مطلب: یورپ کی جدید تعلیم حاصل کرنے والے اور اس کی تہذیب و تمدن کا اثر لینے والے مفکر اور خود جدید عورتیں ماں بننے کو پسند نہیں کرتیں اور دلیل یہ دیتی ہیں کہ ہمیں کئی مہینے مشقت اٹھانا پڑتی ہے اور پھر بچے جننے سے ہمارے حسن میں کمی آ جاتی ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ عورتوں کی اس مظلومی پر جس کا وہ اظہار کر رہی ہیں میں بھی غم ناک ہو جاتا ہوں لیکن کیا کیا جائے خالق کائنات نے عورت کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ اولاد پیدا کرے ۔ یہ ایک ایسی مشکل گرہ ہے جس کا جدید عقلی نظریات سے کھولنا مشکل ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button