جوئے سرود آفريں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شراب لالہ گوں مے کدئہ بہار سے
مست مے خرام کا سن تو ذرا پيام تو
زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہيں قرار سے
پھرتی ہے واديوں ميں کيا دخترخوش خرام ابر
کرتی ہے عشق بازياں سبزئہ مرغزار سے
جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے
پست و بلند کرکے طے کھيتوں کو جا پلاتی ہے
شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فيض سے مزرع زندگی ہری
شان خليل ہوتی ہے اس کے کلام سے عياں
کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری
اہل زميں کو نسخۂ زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربيت پاتی ہے جو سخنوری
گلشن دہر ميں اگر جوئے مے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو