اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

نبوت

میں نہ عارف، نہ مجدّد، نہ محدث، نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں ، کیا ہے نبوت کا مقام

معانی: عارف: دانا، یعنی خدا کی پہچان رکھنے والا ۔ مجدد: دینی اور شرعی مسائل کی تجدید کرنے والا ۔ محدث: حدیث کا عالم ۔ فقیہ: فقہ کا عالم ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں میں چونکہ نہ عار ف ہوں نہ میں مجدد نہ میں محدث اور نہ میں فقیہ ہوں اس لیے میں کیا بتا سکتا ہوں کہ نبوت کیا ہے اوراس کا مرتبہ کیا ہے ۔

ہاں مگر عالمِ اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیرِ فلکِ نیلی فام

معانی: فلک نیلی فام: نیلا آسمان ۔
مطلب: اگرچہ میں محدث، فقیہ ، مجدد اور عارف نہیں ہوں مگر ایک بات مجھ میں ضرور ہے اور وہ یہ کہ میں ممالک اسلام پر گہری نظر رکھتا ہوں ۔ یہ نیلے رنگ کا آسمان جو کچھ اپنے دل میں چھپائے بیٹھا ہے وہ مجھ پر ظاہر ہے ۔ البتہ میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے ممالک میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔

عصرِ حاضر کی شبِ تار میں دیکھی میں نے
یہ حقیقت کہ ہے روشن صفتِ ماہِ تمام

معانی: شبِ تار: اندھیری رات ۔ صفتِ ماہ تمام: پورے چاند کی طرح ۔
مطلب: موجودہ زمانے کی اندھیری رات میں ، میں نے ایک حقیقت چودھویں رات کے پورے چاند کی طرح دیکھی ہے یعنی ایسی حقیقت جس میں کسی قسم کا کوئی شائبہ اور شک نہیں ہے ۔ یہ حقیقت اگلے شعر میں بیان ہوئی ہے ۔

وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام

معانی: برگِ حشیش: بھنگ کے پودے کا پتا ۔ قوت و شوکت: طاقت اور شان ۔
مطلب: وہ نبوت مسلمان کے لیے بھنگ کے سلا دینے والے نشہ کی مانند ہے جس میں قوت، شکوہ، دبدبہ اور جلال کا پیغام نہ ہو ۔ سب انبیاء اپنے مدمقابل فرعونوں اور نمرودوں کے لیے باوجود فقر کے اپنی ہی شان و شکوہ رکھتے تھے لیکن پنجاب کے قصبہ قادیاں میں ایک غلام احمد نامی شخص نے ایسی نبوت کا دعویٰ کیا جس میں جہاد کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس طرح نبیوں کے اندر موجود فقیرانہ شان و شکوہ اور جلال سے انکار کیا ہے اور لوگوں کو انگریز حاکم کا پرستار بنانے کی کوشش کی ہے ۔

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button