دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
معانی: مرکز مہر وفا: محبت اور وفاداری کے مرکز ۔ حریم کبریا: بڑے عبادت خانے سے واقفیت دے ۔
مطلب: اس رباعی میں اقبال دعائیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے خداوند عزوجل سے درخواست گزار ہیں کہ مولا! انسانی قلوب کو اپنی محبت سے لبریز کر دے اور انہیں راہ وفا پر گامزن کر دے ۔
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
معانی: نان جویں : جو کی روٹی ۔ بازوئے حیدر: حضرت علی کی قوت ۔
مطلب: وہ مفلس و نادار اور بے سروسامان لوگ جن کے وسائل اتنے محدود ہیں کہ پیٹ بھرنے کے لیے جو کی روٹی پر ہی اکتفا کرتے ہیں تو یہی سہی تاہم ان کے بازووَں کو قوت حیدری سے بھی نواز دے ۔ اقبال نے اپنے کلام میں بے شمار مقامات پر حضرت علی مرتضیٰ کی جرات و ہمت اور استغنائی کا بار بار ذکر کیا ہے ۔ وہ ان کے مثالی کردار کے بڑی شدت کے ساتھ قائل تھے ۔
—————————
TRANSLITERATION
Dilon Ko Markaz-e-Mehar-o-Wafa Kar
Hareem-e-Kibriya Se Ashna Kar
Make our hearts the seats of mercy and love,
And make them in Thy thought for ever move;
Jise Naan-e-Jaween Bakhshi Hai Tu Ne
Usse Bazoo-e-Haider (R.A.) Bhi Atta Kar
Give the invincible power of Ali (R.A.) the brave.
————————————-