Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rank-math domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114

Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the rocket domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Aag Iski Phoonk Dyti Hay Brna Wa Peer Ko
محراب گل افغان کے افکارعلامہ اقبال شاعری

آگ اس کي پھونک ديتي ہے برنا و پير کو

آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں

معانی: برنا و پیر: جوان اور بوڑھے ۔ صاحب یقیں : یقین کی حد تک ایمان کا مالک ۔
مطلب: اگر لاکھوں میں سے ایک کامل یقین اور ایمان والا آدمی بھی پیدا ہو جائے تو اس کے سوز کی حرارت سے اس کے دور کے سارے بوڑھوں اور جوانوں میں ایمان کی حرارت پیدا ہو سکتی ہے اور ہو جاتی ہے ۔

ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں

معانی: کوہ و دشت: پہاڑ اور بیابان: فقر: درویشی ۔ خزف: ٹھیکری ۔ نگین: نگینہ ۔
مطلب: محراب گل نے جس صاحب یقین و ایمان کی بات پہلے شعر میں کی ہے اس کے متعلق اس شعر میں کہا ہے کہ ایساشخص کبھی کبھار پہاڑوں اور بیابانوں میں پیدا ہو جاتا ہے اس مرد درویش میں یہ روحانی اور ایمانی قوت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو ٹھیکری کو نگینہ بنا سکتا ہے ۔ مراد ہے وہ پسے ہوؤں کو سر بلند کر سکتا ہے ۔

تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہَ حق نے تری جبیں

معانی: سرنوشت: کہانی ۔ خامہ حق: اللہ کا قلم ۔ جبیں : ماتھا ۔
مطلب: اہل نجوم بتاتے ہیں اور عام لوگ بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آدمی کی قسمت کے حالات اس کے ماتھے پر لکھے ہوئے ہوتے ہیں اور اس ماتھے کی تختی کو پڑھ کر اس شخص کے حالات بتائے جا سکتے ہیں لیکن یہاں علامہ اقبال نے محراب گل کی زبان سے اپنے اس فلسفہ تقدیر کو بیان کیا ہے کہ آدمی کی قسمت پہلے سے لکھی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بناتا ہے ۔ اس تناظر میں آدمی کو خصوصاً مسلمان کو یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قلم نے تیرے ماتھے کی تختی پر کچھ نہیں لکھا ہوا ۔ یہ تختی تیری پیدائش کے ساتھ بلکل خالی آتی ہے اور تو جو چاہے اس پر لکھ سکتا ہے یعنی اپنے ارادے اور کوشش سے اپنی جو تقدیر چاہے بنا سکتا ہے ۔

یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پرکشا تو حقیقت میں کچھ نہیں

معانی: نیلگوں : نیلی ۔ پرکشا: پر کھولنا یا اڑنا ۔
مطلب: اس سے پہلے شعر میں محراب گل نے افغانوں یا ان کی علامات میں مسلمانوں کو جو یہ بات سمجھائی ہے کہ تمہاری تقدیر کا بنا یا بگڑنا تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ اس شعر میں اور اس سے اگلے شعر میں اسی بات کو تقویت دینے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ دیکھنے میں نیلے آسمان کی وسعت اور بلندی بہت ہے اور اس تک رسائی ممکن نظر نہیں آتی لیکن اگر تیرے اندر ہمت موجود ہو اور تو اپنے پر کھول کر اور اپنی اڑان سے اس تک پہنچنا چاہے تو یہ بلندی اور وسعت تیرے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھے گی اور تو وہاں تک پہنچ جائے گا ۔ شرط اس ارادے اور ہمت کی ہے جو تقدیر بدلنے کے لیے یا مہمات سر کرنے کے لیے ضروری ہے ۔

بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیرِ پر آ گیا تو یہی آسماں زمیں

معانی: بالائے سر: سر کے اوپر ۔ زیر پر: پر کے نیچے ۔
مطلب: جب تک یہ تیرے سر سے بلند ہے اس کا نام آسمان ہے اور اگر اپنی پرواز سے تو اس تک پہنچ گیا تو یہی آسمان تیرے پاؤں کے نیچے آنے کی وجہ سے تیرے لیے زمین کی حیثیت اختیار کر لے گا ۔ مراد اس مثال سے یہ ہے کہ اگر قسمت کو بدلنے کا عزم پیدا ہو جائے اور اس کے لیے کوشش کی جائے تو اس کو بدلا جا سکتا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button