با ل جبر یل - رباعيات

يہ نکتہ ميں نے سيکھا بوالحسن سے


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
 کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے

چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ نکتہ میں نے ابوالحسن سے سیکھا ہے کہ انسان بے شک جسمانی سطح پر وفات پا جاتا ہے لیکن اس کی روح زندہ و برقرار رہتی ہے ۔ بالفاظ دگر اگر کرنیں سورج سے رابطہ ختم کر لیں تو سورج میں وہ تابندگی کیسے برقرار رہے گی جو اس کی پہچان ہے ۔ مراد یہ ہے کہ روح کے بغیر انسان محض ایک تودہ خاک ہے ۔ میرے نزدیک ابوالحسن سے یہاں مراد حضرت علی المرتضیٰ ہیں چونکہ وہ امام حسن کے والد محترم بھی تھے اس لیے ان کی کنیت ابوالحسن تھی ۔ رباعی میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے اس کے اشارے قرآن پاک کی ایک آیت کے حوالے سے نہج البلاغہ کے بعض اشعار میں بھی ملتے ہیں کہ خدا نور ہے اور روح اس نور کی کرن یعنی پرتو ہے ۔

————————-

Transliteration

Ye Nukta Main Ne Sikha Bu-Al-Hassan Se
Ke Jaan Marti Nahin Marg-e-Badan Se

The subtle point that life would not end with the death of the body
I learnt from Abul Hasan*:

*Abul Hasan Ash‘ari

Chamak Sooraj Mein Kya Baqi Rahe Gi
Agar Bezar Ho Apni Kiran Se!

The sun, if it would hate its beam
Will lose all its brilliance.

————————–


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button