ابتداعلامہ اقبال شاعری

دوزخي کی مناجات

(Armaghan-e-Hijaz-06)

Dozakhi Ki Munajat

(دوزخی کی مناجات)

Litany Of The Damned

 

اس دیرِ کہن میں ہیں غرض مند پجاری
رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد

معانی: دیر کہن: پرانا جہان، دنیا ۔ غرض مند: اپنے مطلب کو پیش نظر رکھنے والے ۔ پجاری: پوجنے والے ۔ رنجیدہ: تکلیف اٹھانے والے ۔
مطلب: دوزخ میں پڑا ہوا شخص خدا سے التجا کرتا ہوا کہتا ہے کہ یہ دنیا ایک ایسے مندر کی سی ہے جس میں خواہشات نفسانی اور طاقت کے بت رکھے ہوئے ہیں اور دنیا والے اپنے اپنے مطلب کے لیے ان کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۔ تجھے تو محض اس وقت یاد کرتے ہیں جب وہ ان بتوں کے ہاتھوں تکلیف میں ہوتے ہیں اور ان کے لیے سوائے تجھے پکارنے کے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا ۔

—————————————

پوجا بھی ہے بے سود، نمازیں بھی ہیں بے سود
قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد

معانی: پوجا: ہندووَں یا غیر مسلموں کی عبادت ۔ نماز: مسلمانوں کی عبادت ۔ بے سود: بے فائدہ ۔ نالہ: رونا ۔
مطلب: اپنی نفسانی خواہشات اور حکمرانوں کی حاکمیت اور طاقت کے آگے جھکنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عبادت ہو یا غیر مسلموں کی عبادت ہو دونوں بے فائدہ ہیں ۔ ان غریبوں کی یعنی ان غیر اللہ سے مرعوب ہونے والوں کی قسمت میں رونا اور فریاد کرنا ہی لکھا ہے ۔

—————————————

ہیں گرچہ بلندی میں عماراتِ فلک بوس
ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانہَ آباد

معانی : عمارات: عمارتیں ۔ فلک بوس: آسمان کو چومنے والی یعنی بہت اونچی ۔ حقیقت : اصلیت ۔ ویرانہ آباد: بہ ظاہر میں آباد لیکن اصل میں ویرانہ،
مطلب: ان خدا کو چھوڑ کر نفس اور طاقت کے بتوں کے آگے جھکنے والوں کے شہروں میں بڑی اونچی اونچی عمارات نظر آتی ہیں لیکن اصلیت میں وہ آبادی نما ویرانے ہیں کہ جن میں رہنے والے اہل یورپ کی غلامی کی وجہ سے تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

—————————————

تیشے کی کوئی گردشِ تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز، جگر تشنہ ہے فرہاد

معانی: تیشہ: ہتھوڑا ۔ گردش تقدیر: قسمت کا چکر ۔ سیراب: پانی پینے والا ۔ جگر تشنہ: جس کا جگر پیاسا ہو ۔ فرہاد: ایران کے ایک شخص کا نام ہے جو ایک عورت شیریں پر عاشق تھا ۔ پرویز: ایران کا ایک بادشاہ جس نے فرہاد کو پہاڑ سے نہر کھودنے پر لگا کر یا اسے فریب دے کر شیریں کو اپنے گھر ڈال لیا تھا ۔
مطلب: علامہ نے اس شعر میں دوزخی کی زبان سے مزدور اور سرمایہ دار ، کاشت کار اور زمیندار، غریب اور جاگیردار وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دور کے مزدور اور کسان پیاسے ہیں اور ان کی محنت سے فائدہ اٹھانے والے جاگیردار، نواب ، بادشاہ اور زمیندار سیر ہو کر پانی پی رہے ہیں ۔ محنت کوئی کر رہا ہے اس سارے عمل کو اس نے ہتھوڑے کی قسمت کا چکر کہا ہے جس ہتھوڑا محنت کے نشان کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ ہتھوڑا مزدور چلا کر پہاڑ سے نہر نکالتا ہے لیکن سیراب اس سے طاقت ور ہو رہا ہے ۔

—————————————

یہ علم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے وہ ہے فکرِ ملوکانہ کی ایجاد

معانی : فکر ملوکانہ : بادشاہی سوچ ۔ ایجاد: نئی چیز تخلیق کرنا ۔
مطلب: اس دور میں اہل مغرب نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر پہلے مختلف ممالک پر قبضہ جمایا پھر ان میں علم، فلسفہ ، سیاست اور تجارت کے ایسے طریقے راءج کئے جن کے ذریعے ان مفتوحہ علاقوں کے الگ فاتحین کے دیے ہوئے فریب میں مبتلا رہی اور ان کی غلامی سے نہ نکل سکیں ۔ یہ سب کچھ ان کی شاہانہ اور ملوکانہ سوچ کا نتیجہ ہے اور غلام قوم سمجھتی ہے کہ حاکموں نے ان کے لیے آسائشیں پیدا کی ہیں اور ترقی کے راستے مہیا کئے ہیں ۔

—————————————

اللہ ترا شکر کہ یہ خطہَ پرسوز
سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد

معانی: خطہ پرسوز: جلا دینے والا خطہ، دوزخ ۔
مطلب: دوزخ حالانکہ نہایت ہی تکلیف دہ جگہ ہے جس میں آدمی آگ میں جھلس رہا ہوتا ہے لیکن اہل مغرب نے دنیا کو تہذیب و ترقی کے نام پر اور غلام بنا کر جس قسم کا دوزخ بنا رکھا ہے اس سے تو اصل دوزخ ہی بہتر ہے ۔ یہ یورپ کے تاجروں کی غلامی سے تو آزاد ہے ۔ اس نظم میں علامہ نے اہل مغرب کی سیاسی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی غلامی کو خلق خدا کے لیے ایک عظیم فتنہ اور المیہ قرار دیا ہے ۔

—————————————

Transcription In Roman Urdu

Douzakhi Ki Munajaat
Iss Dair-e-Kuhan Mein Hain Gharzmand Poojari
Ranjeeda Button Se Hon To Karte Hain Khuda Yaad
Pooja Bhi hai Be-sood, Namazain bhi hain Be-sood
Qismat Hai Gharibon Ki Wohi Nala-o-Faryad
Hain Garcha Bulandi Mein Amaraat Falak Bous
Har Sheher Haqiqat Mein Hai Weerana’ay Abad
Teeshe Ki Koi Gardish-e-Taqdeer Tou Dekhe
Sirab Hai Pervaiz, Jigar-e-Tashna Hai Farhad
Ye Ilm, Ye Hikmat, Ye Siasat, Ye Tijarat
Jo Kuch Hai, Woh Hai Fikar-e-Mulookana Ki Ijaad
Allah ! Tera Shukar Ke Ye Khitta-e-Pursouz
Soudagar-e-Yourap Ki Ghulami Se Hai Azad !

 

—————————————

Translation In English
LITANY OF THE DAMNED

 

Itching palms, in the old temple of Earth, have kneelers,Men who remember their God only when idols are deaf.

Vain are the Hindu’s rites and vain the Mohammedan’s worship; Wailing and gnashing of teeth still are the lot of the poor

None of earth’s cities in truth is more than a populous desert,
High though their buildings soar, kissing the sky with their roofs.
Axe in hand Farhad toils on;—Fate’s irony witness!
Slek and content is Parvez, parching with drought in Farhad.
All that there is in that world its rulers’ brains have engendered:
Science and learning are theirs, commerce and practice of State;
Free of enslavement, Allah be thanked, to the huckster of Europe—
Free is this country of ours, scorched in the furnace of Hell.

 

—————————————

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button