با ل جبر یل - منظو ما ت

يورپ


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار
جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ

خودبخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
 دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

مطلب: ایک مدت سے یہودی سود خوار یورپ کو ہڑپ کرنے کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ عیار و مکار لوگ جن کے بالمقابل چیتے جیسی پھرتی اور شہ زوری بھی ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یورپ کی حیثیت تو ایک پکے ہوئے پھل کی مانند ہے ۔ کون جانے وہ کس کی جھولی میں جا گرے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ خیال اقبال نے جرمنی کے مشہور فلسفی اور دانشور نطشے سے لیا ہے جس نے پہلی بار اپنی ایک تحریر میں یہودی ساہوکاروں کی مکاری اور عیاری کو واشگاف انداز میں بیان کیا ۔

(ماخوذ از نطشہ)

——————————

Transliteration

Taak Mein Baithe Hai Muddat Se Yahoodi Sood Khawar
Jin Ki Roobahi Ke Agay Haitch Hai Zor-e-Palang

The Jewish money‐lenders, whose cunning beats the lion’s prowess,
Have been waiting hopefully for long.

Khud-Ba-Khud Girne Ko Hai Pakke Huwe Phal Ki Tarah
Dekhiye Parta Hai Akhir Kis Ki Jholi Mein Frang!

Europe is ready to drop like a ripe fruit,
Let’s see in whose bag it goes.

(Makhooz Az Natche)
Adapted from Nietzsche

————————–


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button