با ل جبر یل - منظو ما ت

شير اور خچر


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

شیر اور خچر

شیر

ساکنانِ دشت و صحرا میں ہے تو سب سے الگ
 کون ہیں تیرے اَب و جَد کس قبیلے سے ہے تو

معانی: ساکنان: رہنے والے ۔ اب و جد: باپ دادا ۔ قبیلے: نسل ۔
مطلب: اس شعر میں خچر سے مخاطب ہو کر شیر یوں گویا ہوتا ہے کہ اس جنگل میں جو جانور رہائش پذیر ہیں ان میں تیری وضع قطع یقینا سب سے نرالی ہے ۔ اتنا تو بتا دے کہ تیرا کس قبیلے سے تعلق ہے اور تیرے باپ دادا کون ہیں ۔ حقیقتاً یہاں شیر ایک طرح سے خچر کے دوغلے پن پر طنز کرتا نظر آتا ہے ۔

خچر

میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار، شاہی اصطبل کی آبرو

معانی: ماموں : ماں کا بھائی ۔ صبا رفتار: ہوا کی تیز چال ۔ اصطبل: گھوڑوں کا احاطہ یعنی گھوڑا ۔
مطلب: لیکن خچر بھی بڑا ہوشیار اور کائیاں ثابت ہوتا ہے وہ اپنے باپ کا ذکر کرنے کے بجائے جواباً یوں گویا ہوتا ہے کہ حضرت آپ یقینا گھوڑے کو تو یوں پہچانتے ہوں گے جس کی چال ہوا کے مانند ہے اور جس کے دم سے شاہی اصطبل کا وقار قائم ہے سو میرا ماموں وہی تو ہے ۔

————————

Transliteration

Sakinaan-e-Dasht-o-Sehra Mein Hai Tu Sab Se Alag
Kon Hain Tere Ab-o-Jad, Kis Qabeele Se Hai Tu?

You are so different and unlike all the other dwellers of the wild and the desert!
Who are your parents and ancestors? and what is your tribe?

Mere Mamoon Ko Nahin Pehchante Shaid Huzoor
Woh Saba Raftar, Shahi Istabal Ki Abru!

Perhaps your highness does not know My uncle—my motherʹs brother:
He gallops like the wind, and is the pride of the royal stable!

————————–

ماخوذ ازجرمن

(Makhooz Az German)
Adapted from German


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button