تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

عصر حاضر


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

معانی: پختہ افکار: پکے اور صحیح خیالات ۔ خام : کچا ۔
مطلب: زمانہ جدید جو کاملاً مغربی تہذیب و تمدن اور افکار و خیالات میں غرق ہو چکا ہے اسکی بات کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں پکے اور صحیح خیالات ڈھونڈنے ہم کہاں جائیں کیونکہ اس زمانے کی ہوا ہی ایسی ہے جس نے ہر پختہ چیز کو خام بنا رکھا ہے ۔

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

معانی: بے ربط نظام: بغیر کسی ترتیب اور تنظیم کے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے انگریزی تہذیب و تمدن کے تحت قائم ہونے والے مدرسوں کی خرابی کا ذکر کیا ہے کہ ان مدرسوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو نصاب پڑھائے جاتے ہیں ان سے طالب علموں کی عقل آزاد ہو جاتی ہے یعنی وہ مادر پدر آزاد عقل کے مالک بن جاتے ہیں ۔ اور پختہ اور اچھی باتوں کو ماننے کے بجائے ان میں مین میخ نکالتے رہتے ہیں ۔ وہ جذبہ اور عشق جن کی وجہ سے کبھی ایک طالب علم کے ذہن میں خیالات و افکار کی تنظیم اور تربیت رہتی تھی اب اس سے وہ بالکل نا آشنا ہو جاتا ہے اور نتیجتاً قوم کے نوجوان انتشار خیالات اور آوارگی کردار کے مالک بن جاتے ہیں ۔

مردہ لا دینیِ افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطیِ افکار سے مشرق میں غلام

معانی: لادینی افکار: خیالات کا بے دین ہونا ۔ بے ربطی افکار: خیالات میں ترتیب و تنظیم نہ ہونا ۔ افرنگ: اہل مغرب ۔
مطلب: اہل مغرب میں ان کے خیالات کی بے دینی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ دین سے الگ ہو گئے ہیں اور ان میں عشق کی روح مر گئی ہے ۔ دوسری طرف اگر ہم اہل مشرق کو دیکھیں تو ان میں خیالات کی بے ترتیبی اور بے نظمی کی وجہ سے عشق تو ختم ہوا ہی تھا عقل بھی اہل مغرب کی غلام بن کر رہ گئی ہے اور وہ وہی کچھ کہتے اور وہی کچھ سوچتے ہیں جو مغرب والے کہتے اور سوچتے ہیں ۔


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button