غلاموں کے ليے
حکمتِ مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر
معانی : حکمت مشرق و مغرب: مشرق اور مغرب کی فکر یا فلسفہ ۔ نکتہ: باریک بات ۔ اکسیر: تانبے یا مٹی کو سونا بنانا،مراد فائدہ مند ہونا ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ میں نے مشرق اور مغرب کے فلسفہ اور فکر پر غور کیا ہے مجھے تو اس سب کچھ سے صرف ایک باریک بات ہاتھ آئی ہے جو غلاموں کے لیے وہی کام کر سکتی ہے جو کام تانبے کو سونا بنانے کے لیے کوئی اس پر عمل کرتا ہے ۔ وہ باریک بات کیا ہے اس کا ذکر اگلے شعروں میں آتا ہے ۔
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقاید کی بنا پر تعمیر
معانی: دین: مذہب ۔ فلسفہ: فکر ۔ فقر درویشی ۔ سلطانی: شاہی ۔ پختہ عقائد: پکے عقائد یا پکا یقین او ر ایمان ۔ بنا پر تعمیر ہوتے ہیں : بنیاد پر بنائے جاتے ہیں ۔
مطلب: وہ باریک بات جو غلاموں کو آزادی کی نعمت سے مالامال کر سکتی ہے اس کی بنیاد آزادی پر غلاموں کے پختہ یقین پر ہے ۔ علامہ کہتے ہیں کہ مذہب ہو، یا فلسفہ ہو درویشی ہو یا شاہی ہو ان سب کی عمارتیں ایمان اور یقین کے پکے ہونے پر رکھی گئی ہیں ۔ جب تک یقین اور ایمان پکا نہ ہو یہ عمارتیں تعمیر نہیں ہو سکتیں ۔
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقاید سے تہی جس کا ضمیر
معانی: حرف: بات ۔ زاروزبوں : ذلیل و خوار ۔ تہی: خالی ۔ ضمیر: دل ۔
مطلب: جس قوم کا دل پکے عقائد یا یقین اور ایمان سے خالی ہوتا ہے اس قوم کی بات بغیر سوز کے، اور اس قوم کا عمل ذلیل و خوار یعنی بے نتیجہ ہوتا ہے ۔ نظم کے تینوں شعروں کا بنیادی مضمون یہی ہے کہ چاہے زندگی کا کوئی میدان کیوں نہ ہو یقین اور ایمان کا پختہ ہونا ضروری ہے اگر کوئی غلام فرد یا غلام قوم بھی آزادی کا پختہ یقین اپنے اندر پیدا کر لے تو وہ بھی غلامی سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے ۔