تعلیم و تربیتعلامہ اقبال شاعری

اساتذہ


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

مقصد ہو اگر تربیتِ لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو

معانی: اساتذہ: استاد کی جمع ۔ لعل بدخشاں : بدخشاں کا ایک قیمتی پتھر، بدخشاں ایک خطے کا نام ہے جو وسطی ایشیا میں واقع ہے ۔ بے سود: بے فائدہ ۔ خورشید: سورج ۔ پرتو: سایہ، روشنی ۔
مطلب: اگر سورج بھٹک جائے یعنی اپنی روشنی کا صحیح عکس نہ ڈال سکے تو بدخشاں کے لعل کی تربیت بھی وہ نہیں کر سکتا ۔ مراد یہ ہے کہ اگر استاد طالب علموں کو علم کی صحیح اور سچی روشنی نہ دے تو قیمتی سے قیمتی اور لائق سے لائق طالب علم بھی راہ راست سے بھٹک جائے گا جیسا کہ آج کل کے مدرسو ں میں بھٹکے ہوئے طالب علم نظر آتے ہیں ۔ اس کا سبب جہاں تعلیم کی خرابی ہے وہاں اساتذہ کی خرابی بھی ہے ۔

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دَو

معانی: روایات: روایت کی جمع یعنی ایسی باتیں جو قدیم سے چلی آ رہی ہوں ۔ تگ و دو: دوڑ دھوپ، کوشش ۔
مطلب: یہ زمانہ ایسا ہے کہ ساری دنیا روایات کے پھندوں میں گرفتار ہے اور اس میں مدرسہ ، مدرسے والے اور ان کی دوڑ دھوپ بھی شامل ہے اس لیے تعلیم کا صحیح نتیجہ برآمد ہونے کی کوئی امید نہیں ۔

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

معانی: امامت: رہنمائی، رہبری ۔ کہنہ دماغ: پرانے دماغ والے ۔ پیرو: تابع ۔
مطلب: جن اساتذہ میں یہ صلاحیت ہو سکتی تھی کہ وہ اپنے زمانے کی رہنمائی کر سکتے تھے وہ مشاق اور قدیم دماغ رکھنے والے استاد جدید دور کے تابع ہو گئے ہیں اور طالب علموں کو صحیح راہیں دکھانے کی بجائے زمانہ حاضر کی تعلیم کے پیروکار بنائے بیٹھے ہیں ۔


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button