اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

اسلام

    روح ، اسلام کی ہے نورِ خودی، نارِ خودی
زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور

معانی: نورِ خودی، نارِ خودی: خودی کا نور اور خودی کی آگ ۔ زندگانی: زندگی ۔
مطلب: اسلام کی روح خودی کے نور اور خودی کی حرارت میں مضمر ہے ۔ زندگی گزارنے کے لیے خودی کی حرارت سے صاحب خودی کے اندر نور بھی پیدا ہوتا ہے اور اس کی خدا کے حضور حاضری بھی ہو جاتی ہے یا بہ الفاظ دیگر صاحب خودی کو اپنے اندر خدا کی موجودگی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے بلکہ وہ اس کا مشاہدہ کر لیتا ہے ۔

   یہی ہر چیز کی تقویم، یہی اصلِ نمود
گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور

معانی: تقویم: زندگی کا حساب رکھنے والا ۔ نمود: ظہور ۔ مستور: چھپا ہوا ۔
مطلب: اگرچہ قدرت نے اسلام کی اس روح کو پوشیدہ رکھا ہوا ہے لیکن یہی ہر چیز کے حساب و کتاب کا دستور العمل ہے ۔ اس سے ہر چیز میں استحکام اور مضبوطی ہے اور یہی ہر شے کے ظہور کی اصل ہے ۔

            لفظِ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
           دوسرا  نام  اسی  دین  کا  ہے  فقرِ غیور

معانی: کد: ناراضگی ، دشمنی ۔ فقرِ غیور: غیرت مند فقیری ۔
مطلب: اگر اہل یورپ کو اسلام کے لفظ سے چڑ ہے تو وہ یہ لفظ استعمال نہ کریں اس کی جگہ فقرِ غیور نام استعمال کر لیں ۔ بات ایک ہی ہے فقر کے لغوی معنی تو احتیاج، غریبی اور تنگ دستی کے ہیں لیکن اصل میں فقر مسلمان کا وہ جوہر ہے جو اسے ہر احتیاج سے بے نیاز کر دیتا ہے بلکہ ہر شے اس کی محتاج ہو جاتی ہے اور یہی مسلمان کی شان ہے کہ وہ دنیاوی اختیارات سے بے نیاز صرف اللہ کے لیے اپنی زندگی بسر کرے

Translation

The fire and light of ego both, The soul of Muslims together bind
The fire of self is light for life: Godʹs existence brings before the mind

It fortifies the things of life, It is the cause of all display:
Though Nature always hides this soul from the eyes of mankind far away.

If Muslim Faith offends the West, Let the West in its own anger burn:
This faith is known by other names, To ʹJealous Faqrʹ now we must turn.

Transition

Rooh Islam Ki Hai Noor-e-Khudi, Naar-e-Khudi
Zindagaani Ke Liye Naar-e-Khudi Noor-o-Huzoor

Yehi Har Cheez Ki Taqweem, Yehi Asal-e-Namood
Garcha Iss Rooh Ko Fitrat Ne Rakha Hai Mastoor

Lafz-e-‘Islam’ Se Yourap Ko Agar Kidd Hai To Khair
Dosra Naam Issi Deen Ka Hai ‘Faqr-e-Ghayoor’!

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button