با نگ درا - ظریفانہ - (حصہ سوم)علامہ اقبال شاعری

تعليم مغربی ہے بہت جرات آفريں


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

تعلیمِ مغربی ہے بہت جراَت آفریں
پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ

معانی: جرات آفریں : بہادر بناتی ہے ۔ مار ڈینگ: شیخی بگھارنا ۔
مطلب: مغرب کی تعلیم انتہائی جرات انگیز ہوتی ہے اور پہلا سبق جو کسی طالب علم کو کالج میں داخلے کے بعد ملتا ہے وہ ڈینگ مارنے اور شیخی بگھارنے کا ہوتا ہے ۔

بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ

معانی: بستے ہیں : رہتے ہیں ۔ آغا: مراد افغانی باشندہ، پٹھان ۔ ہینگ: ایک درخت کا گوند جو کئی بیماریوں کے لیے مفید ہے ۔
مطلب: کہتے ہیں ہندوستان تو ایک منڈی کی طرح ہے جہاں بیرو نجات سے اشیائے ضرورت آ کر فروخت ہوتی ہیں ۔ اس ملک میں خود اتنی صلاحیت نہیں کہ صنعتی سطح پر اپنے لیے کوئی سامان ضرورت تیار کرے یہاں کی حالت تو اتنی گئی گزری ہے کہ ہینگ جیسی معمولی شے بھی درکار ہو تو وہ کابل جیسے علاقے کے لوگ یہاں لے کر آتے ہیں ۔

میرا یہ حال، بوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں
اُن کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رینگ

معانی: بوٹ کی ٹو چاٹنا: حکمرانوں کی خوشامد کرنا ۔ دیکھ: خبردار ۔ رینگنا: فرش پر کیڑے کی طرح آہستہ آہستہ چلنا ۔
مطلب: اقبال اہل ہند کی غلامانہ ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آقاؤں کی خوشامد میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے کہ ان کے بوٹ کی ٹو تک چاٹنے سے نہیں شرماتے اور ہمارے آقا انگریز اس قدر خوشامد کے باوجود ہم سے انتہائی متکبرانہ سلوک کرتے ہیں اور بوٹ چاٹتے ہوئے اپآ فرش خراب ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔

کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوکدار سینگ

معانی: بھدا: بدصورت ۔
مطلب: غزل کے اس شعر میں اقبال اونٹ اور گائے ، دو کردار پیش کیے ہیں ۔ اونٹ سے مراد مسلمان ہیں اور گائے سے ہندو ۔ انگریز ہندوستان میں قیام کے دوران مسلمانوں کی ہمیشہ تضحیک کرتے رہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہی تھا کہ ہندوستان میں مقیم مسلمانوں نے ان کے اقتدار کے خلاف ہمیشہ نبرد آزمائی کی جب کہ ہندووَں نے ان کا ساتھ دیا ۔ چنانچہ انگریز اس حوالے سے کہ مسلمان عرب سے آئے تھے اور اونٹ وہاں کارآمد ہونے کے باوجود بھدا سا جانور ہے اس کے برعکس ہندو گائے کی پرستش کرتے ہیں اس لیے انہیں گائے سے تشبیہ دی ہے ۔

 


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button