بال جبریل (حصہ دوم)

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہيں


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

 

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

مطلب: اگر ان اشعار کو باقاعدہ غزل کے اشعار سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اپنے موضوعات اور فورم کے اعتبار سے یہ ایک مکمل غزل ہے ۔ مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح ستاروں سے آگے اور بھی دنیاؤں کی نشاندہی کی گئی ہے اس طرح سے عشق میں آزمائشوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے ۔ اور آزمائش کی یہ منزلیں اختتام پذیر نہیں ہوتیں ۔

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

معانی: تہی: خالی ۔ کارواں : قافلہ ۔
مطلب: بظاہر جو فضائیں زندگی سے خالی نظر آتی ہیں لیکن واقعاتی سطح پر ایسا نہیں ہے ان فضاؤں میں ہزاروں قافلے رواں دواں نظر آتے ہیں اور پوری فضا زندگی سے لبریز ہے ۔

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں

معانی: قناعت کرنا: تھوڑے کو بہت سمجھنا، گزارہ کر لینا ۔
مطلب: اس عالم رنگ و بو پر جسے دنیا سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی پر قناعت نہ کر کہ اس سے آگے بھی بہت سی جیتی جاگتی دنیائیں موجود ہیں ۔

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

مطلب: اگر ایک آشیانہ کسی حادثے کے باعث ختم ہو گیا تو اس کا غم کرنا بے سود ہے اس لیے کہ ہجر محبوب میں آہ و زاری کے لیے کوئی ایک مقام تو مخصوص نہیں بلکہ اور بھی مقامات ہیں ۔

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

مطلب: اے انساں ! تو تو شاہیں صفت ہے جس کا منصب پے بہ پے عروج و ترقی کی منزلیں طے کرنا ہے او ر یہ منزل ایک آسماں تک دور نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی آسمان موجود ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ انسان عروج و ارتقاء کے مراحل سے گزرتا ہے تو اس کے لیے محض ایک حد نہیں بلکہ وسیع امکانات موجود ہیں ۔

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

معانی: زمان و مکاں : وقت اور دنیا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اے انسان جو حدود تیرے روبرو ہیں انہی میں الجھنے پر اکتفا نہ کر! اس لیے کہ اس کے علاوہ بھی زمان و مکان کی وسعتیں موجود ہیں جو تیری جولانگاہ ہیں ۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

مطلب: وہ دور ختم ہوا جب یہ دنیا اہل ذوق سے خالی ہو گئی تھی اور بقول اقبال میری حکیمانہ باتیں سننے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا تھا لیکن اب تو صورت حال بڑی حد تک مختلف ہے ۔ یہاں کچھ ایسے اہل ذوق موجود ہیں جو میری باتوں کو سنتے اور سمجھتے ہیں بلکہ میرے حکیمانہ اقوال کے رازداں بھی ہیں ۔

—————————-

Translation

Sitaron Se Agay Jahan Aur Bhi Hain
Abhi Ishq Ke Imtihan Aur Bhi Hain

Tehi, Zindagi Se Nahin Ye Fazaen
Yahan Saikron Karwan Aur Bhi Hain

Qanaat Na Kar Alam-e-Rang-o-Bu Par
Chaman Aur Bhi Ashiyan Aur Bhi Hain

Agar Kho Gya Ek Nasheeman To Kya Gham
Maqamat-e-Aah-o-Faghan Aur Bhi Hain

Tu Shaheen Hai, Parwaz Hai Kaam Tera
Tere Samne Asman Aur Bhi Hain

Issi Roz-o-Shab Mein Ulajh Kar Na Reh Ja
Ke Tere Zaman-o-Makan Aur Bhi Hain

Gye Din Ke Tanha Tha Main Anjuman Mein
Yahan Ab Mere Raazdaan Aur Bhi Hain

————————————–

Other worlds exist beyond the stars—
More tests of love are still to come.

This vast space does not lack life—
Hundreds of other caravans are here.

Do not be content with the world of color and smell,
Other gardens there are, other nests, too.

What is the worry if one nest is lost?
There are other places to sigh and cry for!

You are an eagle, flight is your vocation:
You have other skies stretching out before you.

Do not let mere day and night ensnare you,
Other times and places belong to you.

Gone are the days when I was alone in company—
Many here are my confidants now.


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button