اسلام اور مسلمانعلامہ اقبال شاعری

مسلمان کا زوال


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر، تونگری سے نہیں

معانی: زر: سونا، دولت ۔ قاضی الحاجات: ضرورت پوری کرنے والا ۔ فقر: درویشی، بے نیازی ۔ میسر: حاصل ۔ تونگری: امیری ۔
مطلب: اگرچہ ہر قسم کی ضرورتیں اور احتیاجیں پوری کرنے کے لیے دولت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود جو چیز فقیری (درویشی) میں میسر ہے سکندری (امیری) میں میسر نہیں ۔ درویشی، سکندر جیسے بادشاہ کی دولت او ر اقتدار کی زندگی سے کہیں بہتر ہے ۔ فقر سے یہاں مراد غریبی نہیں بلکہ وہ درویشی ہے کہ جس میں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ ہوتا ہے ۔

اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

معانی: جسورو غیور: دلیر اور غیرت مند ۔ قلندری: فقیری ۔ سکندری: بادشاہی ۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ اگر میری قوم کے جوان کم ہمتی کی بجائے ہمت والے ہوں ۔ ہر قدم ، دلیری اور جسارت سے اٹھا سکتے ہوں اور غیرت مند بھی ہوں تو پھر میری قلندری سکندری سے کم نہیں ہے کیونکہ عظمت انسان کی اصل چیز غیرت ہے خودداری ہے دولت نہیں ۔

سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہَ مومن کا بے زری سے نہیں

معانی: بے زری: غریبی ۔
مطلب : اے مسلمان تو خود اس بات کو سمجھتا ہے کہ تیرا زوال دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تو خدا مست فقیری کو چھوڑ گیا ہے اور شکم پرستی کے چکر میں پھنس گیا ہے ۔

اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں

معانی: جوہر: خوبی ۔ آشکار: ظاہر ۔ قلندری: مذہبی ۔ تونگری: دولت مندی ۔
مطلب: اے مسلمان اگر جہان میں میری صلاحتیں ظاہر ہوئی ہیں تو وہ قلندری اور خدا مست فقیری سے ہوئی ہیں ۔ سکندرانہ شان اور جاہ و جلال سے نہیں ہوئیں ۔ علامہ نے بات تو یہاں اپنی کی ہے لیکن اس مثال سے وہ مسلمان کو بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ایمان پختہ ہو اور فقر کی دولت موجود ہو تو پھر کام بنتا ہے ۔ بے ایمان اور بے فقر شخص کے پاس کتنی دولت اور کتنا جاہ و جلال کیوں نہ ہووہ اس کا زوال ہے کمال نہیں ۔ کمال تو صرف اس مرتبہ اور امیری میں ہے جس میں فقر کی دولت اور خدا مستی کی حالت موجود ہو ۔

 ———————-

Transliterations

Musalman Ka Zawal

Agarcha Zar Bhi Jahan Mein Hai Qazi-Ul-Hajat
Jo Faqar Se Hai Mayassar, Toungari Se Nahin

Agar Jawan Hon Meri Qoum Ke Jasoor-o-Ghayyoor
Qalandari Meri Kuch Kam Sikandari Se Nahin

Sabab Kuch Aur Hai, Tu Jis Ko Khud Samajhta Hai
Zawal Banda-e-Momin Ka Be-Zarri Se Nahi

Agar Jahan Mein Jouhar Aashkara Huwa
Qalandari Se Huwa Hai, Toungari Se Nahin

————–


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button