تا توانی باجماعت یار باش
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

تا توانی باجماعت یار باش
رونق ہنگامہ احرار باش
ترجمہ:
“جب تک ممکن ہو، تو جماعت ہی کا مددگار بن اور یوں آزاد لوگوں کے ہنگامے کی رونق بن جا۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اجتماعی کوشش، اتحاد، اور مسلسل جدوجہد کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔ وہ فرد کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتیں جماعت (ملت) کی ترقی کے لیے وقف کرے اور ایک زندہ و متحرک قوم کا حصہ بنے۔
جماعت کا مددگار بننا:
اقبال فرد کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب تک ممکن ہو، اسے اپنی قوم اور جماعت کی مدد کرنی چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی کامیابی سے زیادہ اجتماعی کامیابی کی اہمیت ہے۔
فرد جب جماعت کے لیے کام کرتا ہے تو وہ خود بھی ترقی کرتا ہے اور ملت کی فلاح میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔
آزاد لوگوں کے ہنگامے کی رونق بننا:
اقبال یہاں زندگی کی سرگرمیوں اور اجتماعی کوششوں کو “آزاد لوگوں کا ہنگامہ” قرار دے رہے ہیں۔
فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل، جدوجہد، اور محنت کے ذریعے ان کوششوں میں جان ڈالے اور قوم کے لیے ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کرے۔
رونق پیدا کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان کا وجود اس کی قوم کے لیے فائدہ مند ہو اور وہ اجتماعی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے والا بنے۔
اجتماعی کوشش اور مسلسل تگ و دو:
دوسروں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہی حقیقی کامیابی کا راز ہے۔
جو فرد اپنی ذات تک محدود رہے، وہ زیادہ ترقی نہیں کر سکتا، جبکہ اجتماعی کوششوں میں حصہ لینے والا فرد نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے بلکہ معاشرے کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔
کسی بھی ملت کی بقا اور ترقی اس کے افراد کی اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
قوم اور ملت کے لیے بہترین ثابت ہونا:
اقبال کا یہ پیغام ہے کہ انسان کو اپنا وجود اتنا قیمتی بنانا چاہیے کہ وہ جماعت کے لیے ایک لازمی جزو بن جائے۔
اس کے عمل، کردار، اور قربانیوں سے ملت میں جان آئے اور وہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم اپنی ملت اور قوم کے ساتھ جڑ کر کام کریں گے، تو نہ صرف ہماری قوم ترقی کرے گی بلکہ ہم خود بھی ایک باعزت اور کامیاب شخصیت بن سکیں گے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں اجتماعی کوشش، اتحاد، اور مسلسل محنت پر زور دیتے ہیں۔ وہ فرد کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی جماعت کا مددگار بنے اور اجتماعی زندگی میں ایک مؤثر اور سرگرم کردار ادا کرے۔ جو لوگ اپنی ذات سے نکل کر اپنی قوم کے لیے کام کرتے ہیں، وہی اصل میں کامیاب اور بامقصد زندگی گزارتے ہیں۔