فطرت آ تش دہد خاشاک را
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

فطرت آ تش دہد خاشاک را
شوخی پروانہ بخشد خاک را
ترجمہ:
“یہ میرے نالے یعنی کوڑے کرکٹ کو آگ کی فطرت عطا کرتے ہیں اور خاک کو پروانوں جیسی شوخی بخشتے ہیں۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اپنے نالوں (آہوں اور فریادوں) کی شدت، عشق کی حرارت، اور جذبے کی طاقت کو بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے نالے کو ایک ایسی قوت سے تعبیر کرتے ہیں جو مردہ چیزوں کو بھی آگ کی طرح جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور خاک میں نئی شوخی پیدا کرتی ہے۔
نالوں میں آگ کی فطرت:
اقبال کہتے ہیں کہ ان کے نالے (آہیں، فریادیں) اتنی شدید اور حرارت سے بھرپور ہیں کہ وہ بظاہر بے جان چیزوں، جیسے کوڑے کرکٹ یا سوکھے ہوئے تنے، میں بھی آگ پیدا کر دیتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی آہیں بے اثر نہیں بلکہ ان میں ایک زبردست قوت ہے جو دنیا میں تبدیلی لا سکتی ہے۔
یہ عشق کی وہ کیفیت ہے جو جمود کو توڑتی ہے اور ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھتی ہے۔
خاک کو پروانوں جیسی شوخی بخشنا:
“پروانہ” وہ کیڑا ہے جو روشنی یا آگ کی طرف کھنچتا ہے اور اسی میں جل کر فنا ہو جاتا ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ ان کے نالے خاک (بے جان چیزوں) میں پروانوں جیسی بے قراری اور شوخی پیدا کر دیتے ہیں، یعنی وہ پھر سے جلنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔
یہ دراصل عشق کی تڑپ اور شدت کو ظاہر کرتا ہے، جو ہر چیز کو ایک نئی حرارت بخشتا ہے۔
عشق کی شدت اور بقا:
اقبال کا عشق محض ایک خاموش جذبہ نہیں، بلکہ وہ ایک ایسی طاقت ہے جو دنیا میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ ان کا عشق ہمیشہ زندہ رہے، اور ان کے نالے عشق کو ایک ایسی حرارت دیں کہ وہ کبھی مدھم نہ ہو۔
اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال چاہتے ہیں کہ عشق کا یہ جوش اور ولولہ ہمیشہ امت مسلمہ میں باقی رہے۔
عشق کا استعارہ:
اقبال عشق کو ایک ایسی طاقت قرار دیتے ہیں جو مردہ قوموں میں نئی زندگی پیدا کر سکتی ہے۔
ان کے نالے، یعنی ان کی فکر، ان کے الفاظ، اور ان کے جذبات، سوئے ہوئے لوگوں میں نئی حرارت پیدا کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر عشق سچا ہو، تو وہ ہر جمود کو توڑ سکتا ہے۔ جیسے پروانہ روشنی میں جلنے کے لیے بے قرار ہوتا ہے، اسی طرح عشق میں وہ شدت ہونی چاہیے جو ہر چیز کو حرارت اور توانائی عطا کرے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں اپنے نالوں کو ایک زبردست روحانی اور فکری قوت قرار دیتے ہیں، جو بے جان چیزوں میں بھی زندگی پیدا کر سکتی ہے۔ ان کے نالے آگ کی فطرت رکھتے ہیں، اور خاک کو پروانوں جیسی بے قراری عطا کرتے ہیں، تاکہ وہ دوبارہ جلیں اور فنا ہو کر عشق کو زندہ رکھیں۔ یہ شعر عشق کی شدت، بقا، اور اس کی انقلابی قوت کو اجاگر کرتا ہے۔