جانم اندر پیکر فرسودہْ
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

جانم اندر پیکر فرسودہْ
جلواہْ آ ہے است گرد آلودہْ
ترجمہ:
“میری جان فرسودہ بدن میں ہے، یہ بدن گرد آلود آہوں کا جلوہ ہے۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اپنی جسمانی اور روحانی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ وہ جسم کو ایک بوسیدہ اور کمزور پیکر کے طور پر دیکھتے ہیں، جو درد، آہوں، اور دکھوں کا مجموعہ بن چکا ہے۔
فرسودہ بدن میں جان کا ہونا:
اقبال کہتے ہیں کہ ان کی جان ایک پرانے، گھسے پٹے، اور بوسیدہ بدن میں قید ہے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کا جسم دنیاوی زندگی کی مشقتوں اور دکھوں سے تھک چکا ہے، مگر ان کی روح ابھی بھی زندہ ہے۔
یہ ایک صوفیانہ نقطۂ نظر کو ظاہر کرتا ہے کہ جسم فانی اور کمزور ہے، مگر روح کی بقا اور طاقت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔
گرد آلود آہوں کا جلوہ:
شاعر کہتے ہیں کہ ان کا جسم دراصل گرد آلود آہوں کا مظہر ہے، یعنی یہ بدن مسلسل درد، تکلیف، اور دکھوں میں لپٹا ہوا ہے۔
“گرد آلود” یہاں جسمانی زوال، تھکن، اور غموں کی علامت ہے۔
“آہوں کا جلوہ” اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بدن محض سانس لینے کی جگہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی ہستی ہے جو ہمیشہ فریاد، آہ و زاری، اور قربانی میں مصروف ہے۔
درد اور مشقت سے گزرنے کا اظہار:
اقبال اس شعر میں اپنی مشکلات، آزمائشوں، اور قربانیوں کو بیان کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا جسم گویا ایک پرانا چراغ بن چکا ہے، جو مسلسل جلتا جا رہا ہے، مگر اس کا نور باقی ہے۔
یہ قربانی اور مسلسل محنت کی ایک بڑی علامت ہے، جو کہ ایک سچے مفکر یا رہنما کی نشانی ہوتی ہے۔
دنیاوی فانی جسم اور لازوال روح کا تضاد:
یہ شعر روحانی گہرائی رکھتا ہے، جس میں جسمانی زندگی کے فنا ہونے اور روح کے باقی رہنے کا تصور دیا گیا ہے۔
اقبال یہ باور کراتے ہیں کہ جسم چاہے جتنا بھی کمزور ہو جائے، مگر جوش، ولولہ، اور فکر ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگرچہ دنیاوی جسم مشکلات اور وقت کے ساتھ کمزور ہوتا جاتا ہے، مگر اگر روح میں جوش، ولولہ، اور قربانی کا جذبہ ہو، تو وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں جسمانی زوال، مشکلات، اور قربانی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے بدن کو ایک فرسودہ، گرد آلود، اور دکھوں میں لپٹے وجود کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ روحانی طور پر زندہ اور مضبوط ہیں۔ یہ شعر قربانی، استقامت، اور حقیقی عظمت کے فلسفے کو اجاگر کرتا ہے۔